تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے سری نگر ہائی وے پر دھرنا دینے کی اجازت مانگ لی

ڈاکٹر بابر اعوان کی عدالت سے فوری طور پر ملک بھر میں شینلگ اور تشددروکنے کے احکامات جاری کرنے کی استدعا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 25 مئی 2022 15:54

تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے سری نگر ہائی وے پر دھرنا دینے کی اجازت مانگ لی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25 مئی ۔2022 ) پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ انہیں سری نگر ہائی وے پر دھرنا دینے کی اجازت دی جائے تحریک انصاف کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے عدالت درخواست کی کہ انہیں سری نگر ہائی وے اسی مقام پر دھرنے کی اجازت دی جائے جہاں مولانا فضل الرحمان نے دیا تھا. سپریم کورٹ نے نے دھر نے کے دورانئیے کے بارے میں دریافت کیا تو بابراعوان نے کہا کہ ابھی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا سیاسی فیصلے سیاسی فورم پر ہی ہونے دیں کیونکہ ہمارا مطالبہ انتخابات کروانے کا ہے انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف پرامن احتجاج کرنا چاہتی ہے.

(جاری ہے)

بابراعوان نے معززعدالت سے استدعا کی کہ فوری طور پر ملک بھر میں شینلگ اور تشددروکنے کے احکامات جاری کیئے جائیں عدالت نے توقع کی کہ ایک گھنٹے میں فریقین کا اتفاق رائے ہوجائے گا. اعلی عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ وزیراعظم سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں جسٹس مظاہرنقوی نے لاہور میں گاڑیاں توڑنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلحہ تو آج کل ہر گھر میں ہوتا ہے صبح سے حکومت اسلحے کی کہانی سنارہی ہے عدالت نے ایک گھنٹے کا وقفہ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ہے.

قبل ازیںوقفے سے قبل سماعت کے دوران معززعدالت نے راستوں کی بندش اور شہریوں کے گھروں میں چھاپوں پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور قراردیا کہ وزارت داخلہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے حساس اداروں کی جانب سے رپورٹس ملی ہیں جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت تحریک انصاف کے راہنماﺅں اور کارکنوں کو حفاظت کے لیے گرفتار کررہی ہے؟.

سپریم کورٹ نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو تحریک انصاف کو احتجاج کے لیے متبادل جگہ فراہم کرنے اور ٹریفک پلان بنا کر اڑھائی بجے تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی جانب سے پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے .

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں، آئی جی صاحب آپ چار دن پہلے تعینات ہوئے آئی جی صاحب آپ پر پہلے ہی بہت کیسز اور الزامات کا بوجھ ہے اپنے آپ میں رہیں، اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور پوری کریں جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر تحریک انصاف کو گرفتاری کا خطرہ ہے تو ہمیں نام بتائیں ہم حفاظتی حکم دیں گے سپریم کورٹ نے سب کا تحفظ کرنا ہے، کوئی کہیں بھی ہو، پاکستان ادھر ہی ہے.

اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی جو مسترد کر دی گئی اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے، حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان پر خودکش حملے کا خطرہ ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ اصل ایشو سے دور جا رہے ہیں، کیا پولیس چھاپے مار کر لیڈرز اور کارکنوں کو حفاظتی تحویل میں لے رہی ہے؟ راتوں کو گھروں میں چھاپے مارنے سے کیا ہوتا ہے؟ حکومت کو سری نگر ہائی وے کا مسئلہ ہے تو لاہور، سرگودھا اور باقی ملک کیوں بند ہے؟.

مسٹرجسٹس اعجاز الاحسن نے چیف کمشنر اسلام آباد سے کہا کہ پی ٹی آئی کو متبادل جگہ کی پیشکش کریں اور مذاکرات کے بعد عدالت کو آگاہ کریں، چیف کمشنر اسلام آباد پی ٹی آئی کو جلسے کے لیے متبادل جگہ کا تعین کرکے اڑھائی بجے تک رپورٹ کریں جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ چیف کمشنر اسلام آباد پلان بنا کر لائیں کہ جلسہ کہاں ہو گا اور ٹریفک پلان کیا ہو گا.

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے وکیل کو بھی قیادت سے ہدایات لے کر آگاہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ملک ہے تو ہم ہیں، آپس کی لڑائیوں میں شہریوں کو مشکل میں مت ڈالیں صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے عدالت میں کہا کہ ایک سڑک بند ہونے سے بچانے کے لیے پورا ملک بند کر دیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انتظامیہ مکمل پلان پیش کرے کہ احتجاج بھی ہو اور راستے بھی بند نہ ہوں.

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر اتنا خطرہ ہے تو حکومت ہدایات جاری کر دے کہ کوئی مارچ نہیں ہو گا کیا سیاسی قیادت کو خطرہ صرف سری نگر ہائی وے پر ہی ہے؟ جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ صاحب جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اسکی ذمہ داری لیتے ہیں؟. جس پر وفاقی سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ لاءاینڈ آرڈر صوبوں کا کام ہے جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہ کہ کیا وزارت داخلہ صرف ڈاکخانے کا کام کرتی ہے؟ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا وزارت داخلہ نے کوئی پالیسی ہدایات جاری کی ہیں؟.

وفاقی سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ وزارت داخلہ نے صوبوں کو کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سب بہاریں پاکستان کی وجہ سے ہیں جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ سکیورٹی تھریٹ کی رپورٹ کس نے دی ہے؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ دو انٹیلی جنس ایجنسیوں اور نیکٹا نے سکیورٹی تھریٹ رپورٹ دی ہے. جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں عدالت کو یقین دہانی کرائیں کہ تشدد نہیں ہو گا اور راستے بھی بند نہیں ہوں گے قبل ازیں جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اسلام اباد میں تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، اسکول اور ٹرانسپورٹ بند ہے، معاشی لحاظ سے ملک نازک دور اور دیوالیہ ہونے کے درپے ہے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ عدالت معیشت سے متعلق آبزرویشن دینے سے گریز کرے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ملک میں جو ہو رہا ہے وہ سب کو نظر آ رہا ہے کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟.

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دیے گئے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے تفصیلات کا علم نہیں معلومات لینے کا وقت دیں جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ کو نظر نہیں آ رہا ملک میں کیا حالات ہیں؟ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا.

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ سکولوں کی بندش کے حوالے سے شاید آپ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دے رہے ہیں میڈیا کی ہر رپورٹ درست نہیں ہوتی جس پرجسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ سکولوں کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹیفکیشن جاری ہوئے ہیں جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے. اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں لیکن عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں، راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں