معیشت کی بحالی کے بعد معیشت کو نمو کی طرف لیکر جانا اور پاکستان کو اب معاشی قوت بنانا ہے، ترقیاتی کاموں سے ملک میں معیشت کا پہیہ چلے گا اور لوگوں کو روزگار ملے گا، سینیٹر اسحاق ڈار

ہفتہ 10 جون 2023 15:18

معیشت کی بحالی کے بعد  معیشت کو نمو کی طرف لیکر جانا اور پاکستان کو  اب معاشی قوت بنانا ہے،     ترقیاتی کاموں  سے  ملک میں معیشت کا پہیہ چلے گا  اور  لوگوں کو روزگار ملے گا،  سینیٹر اسحاق ڈار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 جون2023ء) وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مشکل فیصلوں کے ذریعے معیشت کی گراوٹ کا عمل رک چکا ہے ، معیشت کی بحالی کے بعد اب معیشت کو نمو کی طرف لیکر جانا ہے اور اسے دوبارہ دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بنانا ہے،پاکستان کو ایٹمی طاقت کے بعد اب معاشی قوت بنانا ہے ، معاشی ترقی اور بجٹ کے تمام اہداف قابل حصول اور عملی ہیں، وفاق اور صوبوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام پر حقیقی معنوں میں عمل ہوا تو 3.5فیصد کے نمو کا ہدف آسانی سے حاصل کر لیں گے، ہمارا بنیادی ہدف 2017ء کے معاشی اشاریوں کو دوبارہ حاصل کرنا ہے، تنخواہوں میں اضافہ بنیادی تنخواہ پر ایڈہاک ریلیف کی صورت میں دیا جائے گا، پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح میں اضافے کا کوئی ارادہ نہیں، تازہ اور پراسیسڈ دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، دفاعی بجٹ مجموعی قومی پیداوار کا 1.7 فیصد ہے جو ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہے، ایئر پورٹس کی آئوٹ سورسنگ کے حوالے سے اقدامات جاری ہیں، کوشش ہے کہ جولائی تک پہلے ایئرپورٹ کی آئوٹ سورسنگ کے حوالے سے بولی ہو جائے، پاکستان دیوالیہ نہیں ہو گا، بجلی کے شعبہ میں اصلاحات کیلئے کوشاں ہیں، ہر سال ایک ہزار ارب روپے کی سبسڈی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو یہاں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، سیکرٹری خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور دیگرسینئر عہدیدار بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ منظور ہونے کے بعد عمومی طور پر ایف بی آر دو کمیٹیاں تشکیل دیتی ہے اس میں ایک تجارتی اور ایک تکنیکی کمیٹی شامل ہوتی ہے۔

چیئرمین ایف بی آر آج اس کی منظوری لیں گے اور یہ کمیٹیاں بجٹ کی منظوری تک کام کریں گی۔ جو بھی جائز مسائل ہونگے کمیٹیاں اس حوالے سے سفارشات مرتب کر کے حکومت کو دیں گی جوفنانس بل میں شامل ہونگی۔ اسی طرح سینیٹ کی سفارشات بھی شامل کی جائیں گی، ماضی میں بجٹ کے حوالے سے سینیٹ کی سفارشات کو مسترد کیا جاتا تھا مگر اب ہم اس کو سنجیدہ لے رہے ہیں اور حقیقت پسندانہ اور قابل عمل تجاویز کو اس میں شامل کیا جاتا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد رکھا گیا ہے، مجموعی محصولات 12163 ارب روپے ہیں جس میں 9200 ارب روپے ایف بی آر اور 2963 ارب روپے نان ٹیکس ریونیو کی مد میں حاصل ہونگے۔ فیڈرل ریونیو کا مجموعی حجم 14463 ارب روپے ہے جس میں 7301 ارب روپے مارک اپ کے شامل ہیں، دفاع کیلئے 1804 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، پنشن کی مد میں 761 ارب روپے اور جاری اخراجات 714 ارب روپے ہیں۔

وفاقی حکومت کا مجموعی خسارہ7573 ارب روپے ہو گا، خسارہ 9 فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد کی شرح پر آ گیا ہے۔ پرائمری بیلنس 380 ملین ڈالر ہے جو جی ڈی پی کا 0.4 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی جی ڈی پی 105 ٹریلین روپے کا ہو گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر ملک کی ترقی کا پہیہ چلے گا تو ترقی ہو گی، ہماری حکومت نے پہلی مرتبہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کو 1150 ارب روپے تک بڑھا دیا ہے۔

اس میں 491 ارب روپے بنیادی ڈھانچے کیلئے مختص ہیں۔ سماجی بہبود، تعلیم، ایس ڈی جیز، پانی، فزیکل پلاننگ سمیت اہم شعبوں کیلئے فنڈز مختص ہیں، سابق فاٹا اور پاٹا کے منصوبوں کیلئے 61 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، زرعی خود کفالت کیلئے 45 ارب روپے کے منصوبے ہیں، اسی طرح آئی ٹی اور سائنس کیلئے بھی رقوم مختص کی گئی ہیں، صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 1509 ارب روپے کے قریب ہو گا، مجھے یقین ہے کہ اگر پی ایس ڈی پی پر صحیح عمل ہوا اور صوبے بھی اس پر حقیقی بنیادوں پر عمل کرینگے تو 3.5 فیصد شرح نمو کا ہدف حاصل کرینگے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے مالی سال 2024ء کیلئے پاکستان کی شرح نمو کا ہدف 2 فیصد لگایا ہے تاہم آئی ایم ایف ساڑھے 3 فیصد، بلومبرگ 4 فیصد اور فچ نے بھی 4 فیصد شرح نمو کا اندازہ لگایا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ افراط زر کی شرح 21 فیصد متوقع ہے ، جی ڈی پی کے تناسب سے محصولات کی شرح 8.7 فیصد، خسارے کی شرح 6.5 فیصد اور پرائمری بیلنس 0.4 فیصد ہے۔

جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 66.5فیصد ہے، سابق حکومت نے 25 ٹریلین قرضے کو 49 ٹریلین تک پہنچا دیا تھا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اقتصادی نموہو گی تو روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے، ہمارا بنیادی ہدف 2017ء کے معاشی اشاریوں کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے ہم نے زراعت پرخصوصی توجہ مرکوز کی ہے، کیونکہ پوری دنیا میں زراعت وہ واحد شعبہ ہے جہاں تیزی سے ریٹرن ملتا ہے، الحمدللہ معیشت میں گراوٹ کا عمل رک چکا ہے، اب ہم نے معیشت کو نمو کی طرف لیجانا ہے اوراسے اب دوبارہ دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اہم شعبہ ہے، اس شعبے کی ترقی کیلئے نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں اہم اقدامات کئے گئے ہیں ، تین سال کیلئے ٹیکسوں میں رعایت دی جا رہی ہے، نئے سٹارٹ اپس کو 24 ہزار ڈالر سالانہ ٹرن اوور پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے اسی طرح پچاس ہزار ڈالر برآمدات کی صورت میں ایک فیصد کی شرح سے ڈیوٹی فری کی سہولت دی جا رہی ہے، آئی ٹی کے حوالے سے خصوصی اقتصادی زونز کو بھی ترقی دی جا رہی ہے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کررہے ہیں، وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے 2 ہزار ارب سے زیادہ کا کسان پیکیج دیا تھا جس کے بہترین نتائج سامنے آئے، گندم کی وافر فصل حاصل ہوئی دیگر فصلوں کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا۔

کسان پیکیج میں اب تک 1750 ارب روپے فراہم کئے جا چکے ہیں، نئے مالی سال میں اس مقصد کیلئے2250 ارب روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ رقم تقسیم ہو، پچاس ہزار زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کر رہے ہیں اور اس مقصد کیلئے بجٹ میں 30 ارب روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ زیادہ پیداوار کیلئے بیجوں کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے، فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کر کے ہم نہ صرف برآمدات بڑھا سکتے ہیں بلکہ ملک میں زرعی انقلاب بھی آ سکتا ہے، بیجوں پر ٹیکس اور ڈیوٹیوں کو ختم کر دیا گیا ہے، اسی طرح زرعی آلات پر بھی ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں رعایتیں دی گئی ہیں، زرعی بنیادوں پرقائم ایس ایم ایز کو رعایتی قرضے دینے کیلئے وزیراعظم کی ہدایت پر ایک سکیم کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ زراعت پر مبنی صنعتوں کو ٹیکسوں میں رعایت دی جائے گی، یوتھ کسان پیکیج کے تحت 10 ملین تک کے قرضے دیئے جائیں گے، کھادوں کی قیمتوں میں کمی کیلئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں، حکومت نے کھاد سازی کے کارخانوں کو مزید 3 ماہ یعنی 31 اگست تک گیس کی فراہمی کی منظوری دی ہے اس کا بنیادی مقصد ملک میں کھادوں کی سستی قیمتوں پر فراہمی ہے۔

کھادوں کے حوالے سے حکومت نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں 6 ارب روپے کی سبسڈی دے رکھی ہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ اس کے استعمال کی نوبت نہ آئے اور ہمیں زیادہ درآمدات نہ کرنی پڑیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کا کاروبار معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کا ایس ایم ای کا شعبہ کمزور ہے، اس کی حوصلہ افزائی کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، اس مقصد کیلئے آسان فنانس سکیم کا احیاء نو کر دیا گیا ہے۔

ایس ایم ایز کیلئے ریٹنگ ایجنسی بنانے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری مجموعی برآمدات کے تناسب سے 90 فیصد کا زر مبادلہ سمندر پار پاکستانی بھیج رہے ہیں، نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کیلئے کئی رعایتیں دی گئی ہیں ،پلاٹ اور جائیدادوں کی خریداری پر دو فیصد ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے، سمندر پار پاکستانیوں کیلئے ڈائمنڈ کارڈ بھی متعارف کرائے جا رہے ہیں، پچاس ہزار ڈالر سالانہ زرمبادلہ، بینکنگ چینل سے بھیجنے والے سمندر پار پاکستانیوں کو ممنوعہ بور کا لائسنس دینے کے ساتھ ساتھ سفارت خانوں میں خصوصی رسائی کی سہولیات اور ملک آمد پر ہوائی اڈوں پرسہولیات فراہم کی جائیں گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ تعلیم حکومت کا ترجیح شعبہ ہے، تعلیم کیلئے 5 ملین روپے کا انڈومنٹ فنڈ قائم کررہے ہیں، لیپ ٹاپ سکیم کے تحت جولائی میں پہلی کنسائمنٹ آ رہی ہے، اگلے سال ایک لاکھ طلباء کو میرٹ پر لیپ ٹاپ فراہم کئے جائیں گے، خواتین کو بااختیار بنانا اور تعمیراتی صنعت بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ توانائی کے شعبے میں بہتری لائی جا رہی ہے، سولر پینل انوینٹر اور شعبے کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے، وزیر خزانہ نے کہا کہ بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 450 ارب روپے تک بڑھایا گیا ہے، آٹے، گھی، دالوں اور چاول پر ہدفی زرتلافی کا سلسلہ جاری رہے گا۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سکور کو 32 سے بڑھا کر 40 پوائنٹ تک کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں اور الائونسز میں اضافے کے حوالے سے سیر حاصل بحث ہوئی، مہنگائی کی وجہ سے سرکاری ملازمین کو مسائل کا سامنا تھا حکومت نے گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد، گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی 30 فیصد اور پنشنرز کی پنشن میں 17.5 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔

یہ اضافہ بنیادی تنخواہ پر ایڈہاک ریلیف کی صورت میں ہوگا۔ کم سے کم پنشن کی سطح 10 ہزار روپے سے بڑھا کر 12 ہزار روپے کر دیا گیا ہے، اس طرح مختلف الائونسز میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، صحافیوں کیلئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کی تجویز تھی جس کی کابینہ نے منظوری دی۔ امید ہے کہ یہ ایک کامیاب سکیم ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بیوائوں کے ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے 10 لاکھ روپے تک کے قرضے کی ادائیگی حکومت کرے گی ہم نے سٹیٹ بینک سے اعداد و شمار بھی منگوائے ہیں، ماضی میں بھی محمد نوازشریف کی حکومت نے بیوائوں کے قرضے کے حوالے سے سکیم متعارف کرائی تھی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم جب پشاور گئے تھے تو وہاں پر جو لوگ ان سے ملے ان سب کا یہ مطالبہ تھا کہ سابق فاٹا اور پاٹا میں ٹیکس چھوٹ کی مدت میں توسیع کی جائے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2018ء میں سابق فاٹا اور پاٹا کو 2023ء تک ٹیکس چھوٹ دی تھی، حکومت نے ضم شدہ اضلاع (سابق فاٹا و پاٹا) میں ٹیکس چھوٹ کی مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کر دی ہے۔

وزیر خزانہ نے وضاحت کی کہ تازہ یا پراسیسڈ دودھ پر 10 فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پراسیسڈ دودھ پر سیلز ٹیکس کی تجویز تھی مگر اس کی منظوری نہیں دی گئی کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ اگر پراسیسڈ دودھ پر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا تو ملک بھر میں گوالے تازہ دودھ کی قیمت میں بھی 10 فیصد اضافہ کرینگے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ 2963 ارب روپے کا نان ٹیکس ریونیو قابل حصول ہے کیونکہ اس میں 1113 ارب روپے سٹیٹ بینک کا منافع ہے، ہمارا یہ ہدف حقیقت پسندانہ ہے، اسی طرح پٹرولیم ڈویلپمنٹ کی مد میں بھی 869 ارب روپے حاصل ہونگے۔ گزشتہ سال پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کوبتدریج عائد کیا گیا تھا، سال بھر میں اس کی وصولی نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ انٹرسٹ ڈیوڈنڈ سے بھی 260 ارب روپے حاصل ہونگے۔

مجموعی ٹیکس محصولات کا ہدف 9200 ارب روپے ہے۔ یہ ہدف نمو اور افراط زر کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے جو 200 ارب روپے کے اضافی ٹیکس کا اندازہ ہے وہ معیشت کو دستاویزی بنانے کے عمل سے حاصل ہونگی اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے نان فائلر پر پچاس ہزارروپے سے زیادہ کی رقم نکلوانے پر 0.06 فیصد کی سطح سے ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے وضاحت کی کہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح میں اضافے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، ریسٹورنٹس میں ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر سیلز ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مجموعی زرتلافی کا حجم 1074 ارب روپے ہے جس میں سے 900 ارب روپے بجلی کے شعبے کیلئے ہے، بجلی کے شعبے میں مزید محنت کی ضرورت ہے۔

گزشتہ سال آئی ایم ایف اور ہمارے درمیان یہ ایک اہم معاملہ تھا۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام آزاد جموں و کشمیر اورگلگت بلتستان کوگرانٹس دی جائیں گی، یہ گرانٹس ہر سال افراط زر کی شرح سے دی جاتی ہیں، اس سال آزاد جموں و کشمیر کا حصہ زیادہ ہو گا جس کی بنیادی وجہ منگلا ڈیم کے پانی پر رائیلٹی ہے، آزاد جموں و کشمیر حکومت کے ساتھ ہمارا اتفاق رائے ہوا ہے، آزاد جموں و کشمیرمیں معیاری قیمت پر بجلی فراہم کی جائے گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں خوردنی تیل کی قیمت میں کمی کے بعد یوٹیلٹی سٹور پر گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یکم جولائی سے ملک میں شریعہ کمپلائنٹ مصنوعات فروغ کیلئے دستیاب ہونگی ، اسلامی مالیاتی نظام کی ترویج کیلئے اقدامات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایڈہاک ریلیف الائونس کئی دہائیوں سے چل رہا ہے جب گنجائش ہوتی ہے تو اس کو ضم کر دیا جاتا ہے، ہم نے اپنے گزشتہ دور میں 3 سے چار ایڈہاک ریلیف بھی بنیادی تنخواہ میں ضم کئے۔

کم سے کم اجرت کے حوالے سے نجی شعبہ میں جہاں اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا اس کی نشاندہی کی جائے، میڈیا مالکان سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اس پر پہلے خود عمل کریں اور پھر دوسروں کو ترویج دیں۔ سول سوسائٹی بھی کم سے کم اجرت کی ادائیگی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ حکومت کو شکایات بھیجی جائیں، سیکورٹی گارڈز کو کم سے کم اجرت پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے وزارت داخلہ کے ذریعے اس کا جائزہ لیا جائے گا۔

آئی ایم ایف کے پلان بی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پلان بی ہر وقت اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کیلئے موجود ہوتا ہے، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، گزشتہ حکومت کی گھنائونی غلطیوں کی وجہ سے ہم یہاں کھڑے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بجلی کے شعبہ میں اصلاحات ضروری ہیں، وزیر اعظم سمیت حکومت اس پر بھرپور توجہ دے رہی ہے، ہر سال ایک ہزارارب روپے کی سبسڈی نہیں دے سکتے، بقایا جات کی وصولیوں کے حوالے سے آئیسکو اور فیسکو بہترین ہیں، ڈیسکوز کی نجکاری کے حوالے سے غور کیا جا رہا ہے اس وقت ایئر پورٹس کی آئوٹ سورسنگ پر کام ہو رہا ہے، دنیا میں یہ طریقہ رائج ہے، ہیتھرو ایئر پورٹ بھی آئوٹ سورسنگ پر چل رہا ہے، اس سے سہولیات بہتر نظر آئیں گی، ہم نے آئی ایف سی کی خدمات لی ہیں، 12 ممالک سے کمپنیاں خواہشمند ہیں، کوشش ہے کہ جولائی میں پہلا ایئر پورٹ آئوٹ سورس کرنے کی بڈنگ کر دیں، دوبارہ اقتدار ملا تو کوشش کرینگے کہ پہلے دوسالوں میں اس پر عمل کریں۔

پیٹرول پر سبسڈی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے 800 سی سی سے زائد گاڑیوں پر 50 روپے فی لیٹر زائد چارج کرنے اور یہ پچاس روپے 800 سی سی سے کم گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں کو سبسڈی دینے پر کام کیا۔ تکنیکی طور پر اس کا بجٹ سے کوئی تعلق نہیں تاہم ابھی اس پر حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ تو صارف کوپہنچ رہا ہے لیکن اس سے کرایوں میں کمی سمیت دیگر فوائد عوام تک نہیں پہنچ رہے اس کے حوالے سے صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کا فائدہ عوام تک پہنچائیں۔

وزیراعلیٰ سندھ سمیت دو صوبوں نے اس پر فوری کارروائی کی ہے، ایک بار پھر انہیں ہدایت کرینگے کہ اس کے فوائد عوام تک پہنچائیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت برآمدات کے حصول کیلئے کوشاں ہے، مشکل ترین حالات کے باوجود حکومت نے قومی وقار پر سمجھوتہ نہیں کیا اور بیرونی ادائیگیاں بروقت کیں۔ برآمدات ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صحت اور تعلیم اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی موضوع ہیں۔ 2010ء کے این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے تحت صوبوں کو20 فیصد زائد حصہ اس لئے دیا جارہا ہے کہ وہ ان شعبوں پر خصوصی توجہ مرکوز کریں۔ کافی صوبے اس پر اچھا کام بھی کر رہے ہیں، مشترکہ مفادات کونسل میں یہ نکتہ بنیادی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی میں اضافہ خطرناک ہے، ہمیں اپنی مذہبی حدود میں رہ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہو گا، 3.6 فیصد کے حساب سے آبادی میں اضافہ آپ کے ترقیاتی عمل کو کھا جائے گا۔

یہ معاملہ سی سی آئی کے ایجنڈے پر بھی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دفاعی بجٹ مجموعی قومی پیداوار کا 1.7 فیصد ہے جو ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں کوئی زیادہ نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اتصالات کے ساتھ پی ٹی سی ایل کی املاک کی حوالگی اور بقایا جات کے حصول کیلئے بات چیت جاری ہے۔ اس وقت 30 کے قریب املاک پی ٹی سی ایل کے حوالے کرنا باقی ہیں جس میں سے ایک بڑی پراپرٹی پر ملازمین بیٹھے ہیں، اتصالات نے معاہدہ کے تحت کہا ہے کہ وہ یہ پراپرٹیز نہیں لینگے۔

اتصالات کے ساتھ معاہدہ میں پاکستان کمزورپوزیشن پر ہے، اس نے باقی رہ جانے والی پراپرٹیز کی عالمی ویلیو 776 ملین ڈالر لگوائی ہے ، 800 ملین ڈالر کے بقایا جات ہیں تاہم ان سے بات چیت کے ذریعے 263 ملین ڈالر بقایا جات کی ان کے بورڈ نے منظوری دی ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس کو مزید بڑھائیں۔ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ معاہدہ تھا تاہم ہم اس پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔

یہ مسئلہ حل ہونا چاہئے۔ پی بی سی کے پنشنرز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ کمرشل ادارہ ہے یہ اپنے وسائل پیدا کرے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے وفاقی بجٹ میں آئندہ عام انتخابات کیلئے فنڈز مختص کر دیئے ہیں، حکومت کی ایک سال توسیع کی کوئی نیت نہیں، اگر اتحادی جماعتوں کے سربراہان نے اس حوالے سے بیان دیئے ہیں تو آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے، ان سے اس حوالے سے بات کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ پیرس کلب کے تحت حاصل قرضوں کی ادائیگی بروقت کرینگے، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے تصدیق کی ہے کہ ان سے 3 ارب ڈالر مل جائیں گے، آئی ایم ایف سے 90 ریویو کے حوالے سے امید ہے کہ یہ ریویو ہو جائے گا، تاہم ہمارے پاس متبادل بھی ہے۔ ہم نے اس کیلئے مشکل اصلاحات کیں، عوام پر بوجھ ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ ملکی قرضوں کو ری شیڈول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں