نیچرل جسٹس میں کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہو سکتی، جسٹس حسن رضوی

عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا،ریمارکس،ملٹری ٹرائل میں پورا پروسیجر فالو کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ سیکشن 2 ڈی ون اگر درست قرار پاتا ہے تو نتیجہ کیا ہوگا؟،وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل

Faisal Alvi فیصل علوی جمعرات 16 جنوری 2025 11:32

نیچرل جسٹس میں کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہو سکتی، جسٹس حسن رضوی
اسلا م آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16 جنوری 2025)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دئیے ہیں کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔ نیچرل جسٹس میں کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہو سکتی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے،وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری ہیں،خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ سیکشن 2 ڈی ون اگر درست قرار پاتا ہے تو نتیجہ کیا ہوگا؟قانون کے سیکشنز درست پائے تو یہ ٹرائل کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت تھیں۔

ملٹری ٹرائل میں پورا پروسیجر فالو کیا جاتا ہے۔جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ عدالت نے آپ سے ملٹری ٹرائل والے کیسز کا ریکارڈ مانگا، تھا، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔

(جاری ہے)

خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ عدالت کو ایک کیس کا ریکارڈ جائزہ کیلئے دکھا دیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے پروسیجر دیکھنا ہے کیا فئیر ٹرائل کے ملٹری کورٹ میں تقاضے پورے ہوئے۔

خواجہ حارث بولے کہ ہائیکورٹس نہ ہی سپریم کورٹ میرٹس کا جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے ٹرائل میں پیش شواہد کو ڈسکس نہیں کرنا۔ عدالت محض شواہد کا جائزہ لینا چاہتی ہے۔ نیچرل جسٹس کے تحت کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہو سکتی۔خواجہ حارث نے کہا کہ اگر قانون کے سیکشنز درست قرار پائے تو درخواستیں نا قابل ، سماعت ہوگی، عدالت بنیادی حقوق کے نقطہ پر سزا کا جائزہ نہیں لے سکتی۔

خیال رہے گزشتہ روز بھی سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے کیسز کی سماعت سے متعلق کیس میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا تھا کہ فوجی عدالت میں دہشت گردوں کے ٹرائل کیلئے آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی؟،جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے آج بھی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی تھی۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آج بھی دلائل دئیے تھے۔خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ جرم کی نوعیت سے طے ہوتا ہے ٹرائل کہاں چلے گا۔ اگر سویلینز کے جرم کا تعلق آرمڈ فورسز سے ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں جائے گا۔ عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹس تسلیم شدہ ہیں۔ آرمی ایکٹ کے تحت جرم کا گٹھ جوڑ ہو تو ملٹری ٹرائل ہوگا۔ بات سویلین کے ٹرائل کی نہیں تھی۔ سوال آرمی ایکٹ کے تحت ارتکاب جرم کے ٹرائل کا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ جرم کے گٹھ جوڑ سے کیا مراد ہے جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ گٹھ جوڑ سے مراد جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے تھا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں