اقبال کسی بھی قسم کی انتہاء پسندی کے حامی نہیں تھے

سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق کا عالمی علامہ اقبال کانفرنس سے خطاب

پیر 6 نومبر 2017 19:53

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 نومبر2017ء) سینٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ علامہ محمد اقبال کا فلسفہ نوجوان نسل کیلئے مشعل راہ ہے، اقبال کسی قسم کی بھی انتہاء پسندی کے حامی نہیں تھے۔ وہ پیر کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے یومِ پیدائش کے سلسلہ میں مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام اسلام آباد میں تین روزہ عالمی علامہ اقبال کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کر رہے تھے۔

کانفرنس میں 18 ممالک سے محققین اپنے تحقیقی مقالے پیش کریں گے۔ اس موقع پر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ علامہ محمد اقبال خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے، انہوں نے اپنے فلسفہ اور شاعری میں اتحاد مسلمہ پر زور دیا، علامہ محمد اقبال کی تعلیمات مسلم دنیا کیلئے آفاقی حیثیت رکھتی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ علامہ محمد اقبال نے دو قومی نظریہ دیا جس پر چل کر پاکستان کا وجود ممکن ہو سکا، وہ انتہاء پسندی کی کسی بھی شکل کے حامی نہیں تھے، اقبال کا فلسفہ آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ہے، ہمیں ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیگر مقررین نے کہا کہ کانفرنس میں 18 ممالک کے دانشور اور محققین کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ اقبال کو فقط پاکستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہے، عالمی سطح پر فکر اقبال پر دانشوروں کو اکٹھا کرنا پاکستان کیلئے باعثِ اعزاز ہے۔ یہ پاکستانیوں کیلئے سر فخر سے بلند کرنے کی بات ہے کہ علامہ اقبال ان کی قوم سے ہیں۔

تحقیق کی دنیا کے درخشاں ستارے آج فکرِ اقبال کو عالمی مسائل کے حل کی کنجی قرار دے رہے ہیں۔ علامہ اقبال مسلم امہ کے مسائل پر بڑے اجتہاد کے قائل تھے، علامہ اقبال جوانوں اور فکر کے شاعر تھے، وہ فقر اور فقیری کے قائل تھے مگر اونچی اور انقلابی نظر ان کا خاصا تھا۔ اقبال نہ صرف مسلم امہ بلکہ پوری دنیا کے شاعر تھے۔ علامہ اقبال نے مغرب اور مشرق میں ٹکرائو بہت پہلے دیکھ لیا تھا۔

علامہ اقبال مغرب کی نفسیات سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ انہوں نے مسلم امہ کو عالمی ٹکرائو کی صورتحال میں اجتہاد کی دعوت دی تھی۔ انہوں نے اسلامی قانون کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اجتہاد پر باقاعدہ مکالمے منعقد کروائے وہ سمجھتے تھے کہ اجتہاد تعمیرنو کا نام ہے نہ کہ قرآن کو چھوڑ کر شریعت بدلنا اور یہ کہ اجتہاد قرآن و سنت سے رہنمائی لے کر ہی کیا جا سکتا ہے، علامہ اقبال کائنات کے حرکی نظریے کے قائل تھے جو ہر لمحہ بدلتی ہے۔

اقبال انسان کی ذمہ داریوں کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ قرآن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم کائنات کا مطالعہ کریں اور اس کو سمجھیں۔فکر اقبال انسان کو کائنات میں اپنے مقام کی تلاش اور پہچان کی دعوت دیتی ہے، علامہ اقبال کی تجدید فکریات کی تحریک سماجی، معاشرتی اور سائنسی علوم کی روشنی میں پرورش پاتی ہے اس کی جتنی ضرورت آج ہے تاریخ میں پہلے کبھی نہ تھی۔

علامہ اقبال سماجی اور معاشی طور پر پسے ہوئے طبقوں کی آواز تھے۔جس وقت انسان کی عالمگیریت کھو رہی تھی اس وقت اقبال انسانی شعور کے نمائندہ کے طور پر کردار ادا کیا اور انسان کو اس کی عالمگیریت سے جھوڑا۔علامہ اقبال کے افکار جس قدر جہات پر پھیلے ہیں وہ تقاضا کرتے ہیں کہ اقبال کو ان تمام افکار کے تناظر میں دیکھا جائے۔ہمیں اقبال کو اس انداز میں سمجھنا چاہیے جس میں قائداعظم نے سمجھا۔

قائداعظم یہ اقرار کرتے ہیں کہ قرارداد پاکستان فکر اقبال کا نتیجہ تھی۔اقبال کے مطابق پاکستان کا رخ وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کی جانب ہے ہمیں آج اپنی ترجیحات فکرِ اقبال کی روشنی میں ترتیب دینا ہوں گی۔ اقبال کی شاعری اور فلسفہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔اقبال نے مروجہ سائنسی، فلسفیانہ اور مذہبی علوم اور ان کے کائنات کے متعلق نظریات پر بحث کی ہے۔

جدید دور کے چیلنجز اور سوالات کے بہترین جواب علامہ اقبال نے دیئے ہیں۔ پہلے دن عالمی علامہ اقبال کانفرنس سے بانی مسلم انسٹیٹیوٹ حضرت سلطان محمد علی، علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال، سابق وزیر ترکی محمد گورمیز، چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی، افغانستان سے ڈاکٹر حلیم تنویر، سابق ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی ڈاکٹر سہیل عمر، یونیورسٹی آف جارجیا، امریکہ سے ڈاکٹر ایلن گوڈلاس، جرمنی سے ڈاکٹر ہگ وین اور پروفیسر احسان اکبر نے خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں