اے ٹی ایم ہیکرز کیس:ایف آئی اے کی یکطرفہ کارروائی کیخلاف ملزم کے والد کی عدالت میں درخواست

ایف آئی اے نے میرے اکلوتے بیٹے کو گرفتار کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ، بھارت سے تعلق جوڑا جارہا ہے،کیس کو بند کرنے کیلئے 20 لاکھ اور ایک لگژری گاڑی کی ڈیمانڈ کی گئی جو پوری نہ ہونے پر تفتیشی ٹیم نے میرے بیٹے پر 12 دفعات لگا دیں،عدالت سے انصاف کی توقع ہے، ملزم کا والدنور کمال کیس کی میرٹ پر تفتیش کررہے ہیں،گاڑی مطالبہ کرنے والوں کیخلاف انکوائری کرینگے، ڈائریکٹر ایف آئی اے شکیل درانی

اتوار 10 دسمبر 2017 16:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 دسمبر2017ء) اے ٹی ایم ہیکرز کیس کو بند کرنے کے لئے ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم نے مبینہ طور پر 20 لاکھ روپے اور ایک لگثرری گاڑی کی ڈیمانڈ کی ہے ۔ رقم کی ادائیگی نہ ہونے پر پکڑے گئے نوجوان ہیکر کو ایف آئی اے کی تفتیشی نے 12 دفعات لگا کر ایف آئی اے کے بوجھ تلے دبا دیا۔ نوجوان ثاقب اللہ کے والد نے 40 لاکھ روپے مالیت کے پرائز بانڈ سمیت 54 لاکھ روپے کی اشیاء گھر سے اٹھانے کا الزام بھی ایف آئی اے پر لگا دیا ۔

ایف آئی اے کی یکطرفہ کارروائی کے خلاف ملزم کے والد نور کمال نے عدالت میں درخواست بھی دائر کر دی ۔ تفصیلات کے مطابق اے ٹی ایم ہیکرز کیس میں نامزد کئے گئے مرکزی ملزم ثاقب اللہ جو کہ ایف آئی اے کو فوٹو سٹیٹ مشینیں بھی سپلائی کرتے رہے ہیں نے الزام عائد کیا ہے کہ ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم نے اصل ملزمان کو گرفتار کرنے کی بجائے میرے اکلوتے بیٹے کو ٹارگٹ کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

میرے بیٹے نے حال ہی میں آئی سی ایس کا کورس مکمل کیا ہے اور کھنہ پل پر اس نے فوٹو سٹوڈیو بنایا ہوا ہے ۔ 27 نومبر کو ایف آئی اے کی انسپکٹر حمیرا اسلم ‘ اے ایس آئی اے اختر علی ‘ کانسٹیبل عباس علی ‘ کانسٹیبل جہانزیب زبردستی میرے گھر میں داخل ہوئے اور میرے بیٹے اور مجھ پر تشدد کیا ۔ جب ایف آئی اے کے یہ لوگ ہمارے گھر میں داخل ہوئے اس سے آدھے گھنٹہ پہلے ایک نوجوان کچھ مشینیں میرے بیٹے کے پاس درستگی کے لئے لے کر آیا ۔

ابھی وہ ہمارے گھر پر موجود تھا کہ ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم میرے بیٹے کو اور اس لڑکے کو لے گئی اور بعدازاں مشینیں لانے والے لڑکے کو چھوڑ دیا گیا ۔ جب میں ایف آئی اے کے اقبال ٹائون والے دفتر پہنچا تو اے ایس آئی اختر علی اور کانسٹیبل عباس میرے بیٹے پر بہیمانہ تشدد کر رہے تھے۔ مجھے کانسٹیبل جہانزیب نے انسپکٹر حمیرا اسلم کے ساتھ ڈیل کرنے کے لئے کہا ۔

حمیرا اسلم نے مجھے کہاکہ آپ نے زبان بند رکھنی ہے اور باقی کام تمہیں کانسٹبیل جہانزیب سمجھا دے گا۔ملزم کے والدنور کمال نے بتایا کہ میرے پاس ثبوت موجود ہیں مجھے کانسٹبیل جہانزیب نے کہا کہ آپ 50 لاکھ روپے کا فوری بندوبست کرو وگرنہ تمہارے بیٹے پر ایسی دفعات لگیں کہ ساری عمر جیل میں بھگتے گا ۔ میں نے بتایا کہ میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے اس کے بعد جہانزیب کانسٹیبل نے کال کر کے کہا کہ آپ 20 لاکھ روپے اور ایک ویگو گاڑی کا بندوبست کر دو ہم ضمنیو میں تمہارے بیٹے کو بے گناہ لکھ دیں گے ۔

نور کمال نے بتایا کہ دوسرے روز میری ملاقات میرے بیٹے سے کروائی گئی تو اس نے بتایا کہ مجھ پر تشدد کر کے بیان لیا گیا ہے اور مجھے حکم دیا گیا تھا کہ جو تفتیشی ٹیم نے بیان تیار کیا ہے اس پر دستخط کرو اور یہی بیان عدالت میں دینا ۔ اس کے بعد حمیرا اسلم نے ہم سے مطالبہ کیا کہ ہمارے مرضی کے وکیل عامر ایڈووکیٹ کی خدمات حاصل کریں آپ کا کام آسان کر دیا جائے گا ۔

نور کمال نے بتایا کہ میں نے عدالت میں میرے گھر سے اٹھائے گئے سامان کی مکمل فہرست جمع کرا دی ہے جبکہ ایف آئی اے والے انکار کر رہے ہیں ۔ نور کمال نے عدالت کو دی گئی درخواست میں جو فہرست پیش کی ہے اس کے مطابق 40 لاکھ روپے مالیت کے پرائز بانڈ‘ 3 لاکھ روپے مالیت کے کیمرے ‘ 2 لاکھ روپے 40 ہزار روپے کے زیورات سمیت دوسرا قیمتی سامان شامل ہے جس کی کل مالیت 54 لاکھ روپے 7 ہزار روپے بنتی ہے ۔

نور کمال کا کہنا ہے کہ میں سرکاری اداروں کو جنرل آرڈر سپلائی کا کام کرتا ہوں اور آرڈر پر ایف آئی اے کو بھی فوٹو سٹیٹ مشینیں فراہم کر چکا ہوں ۔ نور کمال نے کہا کہ ایف آئی اے نے اپنے کیس کو مضبوط کرنے کے لئے میری فالج زدہ بیوی اور معصوم بیٹیوں کو بھی اس کیس میں ملوث کر دیا ہے میرے بیٹے کا تعلق بھارت سے بھی غلط جوڑا جا رہا ہے اور ظلم یہ کیا جا رہا ہے کہ مجھے اے ایس آئی اختر علی اور کانسٹیبل جہانزیب نے طوائفوں کا نام لے کر بھی بلیک میل کیا ۔

فاحشہ عورتوں سے تعلق کی کہانی بے بنیاد اور خود ساختہ ہے ۔ نور کمال نے دعویٰ کیا کہ اس سکینڈل میں سجاد اور کاشف نامی دو افراد کا اہم کردار ہے لیکن حمیرا اسلم اور اس کے ساتھی ان دونوں کو گرفتار کرنے سے گریز کر رہے ہیں اور سارا ملبہ میرے بیٹے پر ڈالا جا رہا ہے ۔ نور کمال کے مطابق اس نے انصاف کے لئے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ میں رٹ دائر کر دی ہے اور مجھے انصاف کی پوری امید ہے ۔

اس حوالے سے ڈائریکٹر ایف آئی اے شکیل درانی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں کچھ مزید لوگ بھی گرفتار کئے ہیں لیکن ملزم کے والد نور کمال کے پاس اگر کوئی ثبوت ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا بے گناہ ہے تو وہ مجھے آ کر بتائے اور اگر کسی پولیس آفیسر یا چھوٹے اہلکار نے اس سے رقم اور گاڑی کا مطالبہ کیا ہے تو اس کی بھی انکوائری ہو سکتی ہے لیکن ملزم کے والد کو میرے پاس آنا چاہئے ہم میرٹ پر تفتیش کر رہے ہیں ۔ ۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں