موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر شہروں اور انفراسٹرکچر کو ترقی دینا وقت کی ضرورت ہے

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی محمد یوسف شیخ کا پاکستانی شہروں کی صورتحال کے بارے میں حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے اشتراک سے تیار کردہ رپورٹ کے اجراء کی تقریب سے خطاب

جمعرات 19 جولائی 2018 18:15

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 جولائی2018ء) وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی محمد یوسف شیخ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنا اور ان عوامل کو مدنظر رکھ کر شہروں اور انفراسٹرکچر کو ترقی دینا وقت کی ضرورت ہے۔وہ پاکستانی شہروں کی صورتحال کے بارے میں حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے اشتراک سے تیار کردہ رپورٹ کے اجراء کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی اور یو این ہیبیٹاٹ نے آسٹریلیا کی حکومت کے تعاون سے پاکستان کے دس بڑے شہروں کے حالات کے بارے میں یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ رپورٹ کا اجراء جمعرات کو یہاں ایک تقریب میں کیا گیا۔نگران وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی محمد یوسف شیخ، نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر، پاکستان میں آسٹریلیا کی ہائی کمشنر مارگریٹ ایڈمسن، اقوام متحدہ کے کنٹری ریذیڈنٹ نیل بوہن اور رپورٹ کے مصنف و شہری امور کے ماہر بابر ممتاز نے تقریب سے خطاب کیا۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنا اور ان عوامل کو مدنظر رکھ کر شہروں اور انفراسٹرکچر کو ترقی دینا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی شہروں کی صورتحال بارے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بنیادی شہری ڈھانچہ و سہولیات تیزی سے شہروں کے بڑھنے کی رفتار سے ہم آہنگ نہیں ہیں، ماحولیات انحطاط پزیر ہے اور اس صورتحال میں شہروں کے پھیلائو کے چیلنجز میں اضافہ ہو رہا ہے۔

محمد یوسف شیخ نے کہا کہ پاکستان کے شہروں کو بہتر منصوبہ بندی اور منظم ترقی کی ضرورت ہے تاکہ شہری مسائل پر قابو پایا جا سکے اور شہریوں کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ خوشحال شہروں کو ماحولیات سے زیادہ ہم آہنگ ہونا چاہیے اور ایسی ٹیکنالوجیز اور معاشی طریقے اپنانے چاہیں جو وسائل کے ضیاع میں کمی کا ذریعہ بن سکیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان اربنائزیشن کے چیلنجز سے آگاہ اور اس حوالے سے اقدامات کے لئے پرعزم ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ 2030 تک شہری آبادی ملک کی دیہی آبادی سے تجاوز کر جائے گی، ویژن 2025 ء میں بھی سمارٹ سٹیز کا تصوری پیش کیا گیا ہے۔ اس موقع پر وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ شہروں میں اضافہ کی کئی وجوہات ہیں جن میں مہاجرت، قدرتی آفات، دیہی علاقوں میں معاشی عدم مساوات اور زرعی شعبوں میں تنزلی نمایاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہروں کے انتظام کے حوالے سے ویسٹ مینجمنٹ، کاربن کا اخراج اور شہری زمہ داریوں کے عدم احساس جیسے چیلنجز درپیش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اربنائزیشن کے سلسلے میں مساوات اور اجتماعیت کی بنیاد پر کام کیا جانا چاہیے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے شہروں کو منسلک کرنے میں مدد ملے گی۔ اس موقع پر پاکستان میں آسٹریلیا کی ہائی کمشنر مارگریٹ ایڈمسن نے کہا کہ یہ پائیدار شہروں کے حوالے سے ایک بروقت اقدام ہے، اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے ویژن 2025 اور واٹر پالیسی سمیت کئے گئے مختلف اقدامات قابل ستائش ہیں۔

اقوام متحدہ کے کنٹری ریذیڈنٹ نیل بوہن نے وفاقی، صوبائی حکومتی اور نجی شعبہ کی جانب سے کوششوں کو سراہا۔ انہوں شہری آبادی کو درپیش سماجی خدمات تک رسائی، آلودگی، بیروزگاری، جرائم اور عدم تحفظ جیسے مسائل کو اجاگر کیا۔ اس موقع پر پاکستانی شہروں کی صورتحال بارے رپورٹ کے مصنف اور شہری امور کے ماہر بابر ممتاز نے اپنے خطاب میں رپورٹ کے نمایاں خدوخال کو اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ دس بڑے شہروں بشمول کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، پشاور، ملتان، حیدرآباد، اسلام آباد اور کوئٹہ کے متعلق ہے جس میں اربنائزیشن کے چیلنجز سے نمٹنے کی ان کی صلاحیت کو بیان کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دس منتخب شہروں کی آبادی کل شہری آبادی کے نصف سے زیادہ یعنی 54 فیصد ہے۔ پاکستان کے شہر اپنی معیشت کے حجم، روزگار اور ٹیکس ریونیو کے حوالے سے مختلف ہیں۔

خدمات اور انڈسٹری روزگار کے بڑے شعبے ہیں، شہروں کی معیشت میں خدمات کے حصے کا تناسب قومی معیشت کے خدمات کے حصے سے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق قومی سطح پر مجموعی فیڈرل ٹیکسوں کا 95 فیصد دس بڑے شہروں سے حاصل ہوتا ہے۔ دس میں سے چھ بڑے شہروں میں میں غربت کے اعدادوشمار ڈبل ڈیجٹ میں ہیں، غربت کی سب سے زیادہ شرح کوئٹہ میں 46 فیصد جبکہ سب سے کم شرح اسلام آباد میں 3 فیصد ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں