ملک بھر میں لاپتہ افراد میں سے مزید64کا سراغ مل گیا

جمعرات 16 اگست 2018 20:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 اگست2018ء) ملک بھر میں خفیہ ایجنسیوںا ور قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کی طرف سے مبینہ طور پر زبردستی اٹھائے گئے افراد میں سے مزید64کا سراغ مل گیا ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کمیشن برائے بازیابی لاپتہ افراد نے گزشتہ7سالوں کے دوران اپنی زبردست محنت اور بصیرت سے مجموعی طور پر 3ہزار3سو98لاپتہ افراد کو ڈھونڈ نکالا ہے۔

بد قسمتی سے گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان میں سرکاری تحقیقاتی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے تفتیش کے نام پر ماورائے عدالت مختلف نوعیت کے مشکوک افراد کو اٹھا کر انٹیروگیشن سنٹرز اور نامعلوم مقامات پر تحویل میں رکھنے کے نہایت تلخ اور تکلیف دہ واقعات سامنے آئے ہیں۔

(جاری ہے)

وزارت داخلہ کے ریکارڈ کے مطابق اب تک ان کے پاس 5ہزار 2سو 90کیسز رجسٹر ہوئے ہیں جن میں سی77کیسز صرف ماہ جولائی 2018ء میں درج کروائے گئے ۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن برائے بازیابی لاپتہ افراد سے جڑے افراد نہایت جانفشانی سے خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن اب بھی ان کے پاس1828خاندانوں کی شکایات موجود ہیں جن کے وارثین آنکھوں میں آنسو چھپائے اپنے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کے منتظر ہیں ۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے سب سے متاثرہ صوبہ خیبر پختونخواہ ہے جہاں سے بلا مبالغہ ہزاروں نوجوانوں کو اچانک غائب کر دیا گیا۔

جولائی 2018ء میں بازیاب ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق بھی صوبہ کے پی کے سے ہی ہے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان کے معاشی حب کراچی سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جولائی 2018ء کے دوران کراچی کے 17کیسز کا سراغ مل گیا۔ جنوبی پنجاب کے علاقوں سے بھی بڑی تعداد میں لاپتہ افراد کے کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں جن میں سے گزشتہ ماہ12کا سراغ لگا لیا گیا۔

سراغ ملنے والے افراد میں اسلام آباد کے 3، بلوچستان کے 5جبکہ آزاد کشمیر کا ایک رہائشی شامل ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق گزشتہ ماہ کمیشن برائے بازیابی لاپتہ افراد نے مجموعی طور پر 537کیسز کی چھان بین اور سماعت کی جن میں سی204اسلام آباد، 169کراچی،73لاہور اور کوئٹہ میں91کیسز کی سماعت کی گئی۔ کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ وزارت داخلہ، وزارت قانون و انصاف ، وزارت انسانی حقوق ، وزارت دفاع سمیت انٹیلی جنس بیورو ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہان ، چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز اور سپریم کورٹ کو بھی ارسال کر دی ہے۔

کمیشن برائے بازیابی لاپتہ افراد کے چیئر مین جسٹس(ر) جاوید اقبال کی کاوشوں کو ملک بھر کے عوام اور حکومتی سطح پر زبردست پذیرائی حاصل ہے اور اس لئے اس عارضی کمیشن کو سابقہ وفاقی کابینہ نے مزید تین سال کے لئے توسیع دیدی تھی۔ کمیشن سے منسلک اعلیٰ سطحی ذرائع نے بتایا ہے کہ کمیشن کے پاس نہ تو اختیارات ہیں نہ مالیاتی وسائل۔ دو ممبران میں سے ایک ہائی کورٹ کے سابق جج ہیں جنہیں ریٹائرڈ جج کی حیثیت سے تقریبا7لاکھ روپے ماہانہ مشاہیرہ دیا جا رہا ہے جبکہ دوسرے ممبر سابق آئی جی ہیں جنہیں صرف سوالاکھ روپے ماہانہ ملتے ہیں۔

ذرائع نے کہا کہ کمیشن کے چیئر مین جسٹس (ر) جاوید اقبال چونکہ سپریم کورٹ کے جج تھے اور بہت دبنگ انداز میں انہوں نے قوم کی خدمت کی ہے علاوہ ازیں وہ اس وقت ملک کے سب سے اہم اور با اثر ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) کے سربراہ بھی ہیں لہذا ان کی ذاتی کوششوں کی بدولت لاپتہ افراد کا سراغ لگایا جا رہا ہے ورنہ یہ تقریباً نا ممکن کام تھا۔ ذرائع نے ’’ان لائن‘‘ کو بتایا کہ اگر کمیشن کو مزید اختیارات اور وسائل دیئے جائیں تو یہ کام اتنے موثر انداز میں ہو سکتا ہے کہ قوم کو آئندہ دو تین سال بعد ایسی کسی صورتحال کا کبھی سامنا ہی نہیں ہو گا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں