ریلوے کی آمدنی 50ارب ، خسارہ 37ارب روپے تک پہنچ گیا ،سینیٹ قائمہ کمیٹی ریلوے کو بریفنگ

ایک لاکھ12ہزار پنشنرز کو سالانہ 30ارب کی پنشن ادا کی جاتی ہے ، حکومت کی طرف سے 37ارب روپے کی سبسڈی ملتی ہے کمیٹی نے آئندہ میٹنگ میں ریلوے کمپنیوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی گزشتہ تین سالوں میں انشورنس کی مد میں کتنے پیسے ادا کیے گئے اس حوالے سے ریکارڈ بھی طلب

جمعرات 16 اگست 2018 20:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 اگست2018ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کو بتایا گیا ہے کہ ریلوے کی آمدنی 50ارب روپے جبکہ خسارہ 37ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، ایک لاکھ12ہزار پنشنرز کو سالانہ 30ارب روپے کی پنشن ادا کی جاتی ہے جبکہ حکومت کی طرف سے 37ارب روپے کی سبسڈی ملتی ہے، ریلوے کی منظور شدہ 94ہزار600آسامیاں ہیں جبکہ 76ہزار کے قریب لوگ کام کررہے ہیں جس میں پولیس ، ڈاکٹرز ، ٹیچر وغیرہ سب شامل ہیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ریلوے کی 12ارب روپے کی املاک کو نقصان ہوا،ٹھیکے پر دی گئی بزنس ٹرین میں دو ارب روپے کی ادائیگی نہیں کی گئی اس حوالے سے کیس نیب میں ہے ، ریلوے نی7947ایکڑ رقبہ واہگزار کرایا جس کی مالیت 18ارب 79کروڑ10لاکھ روپے بنتی ہے۔

کمیٹی نے آئندہ میٹنگ میں ریلوے کمپنیوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی اورگزشتہ تین سالوں میں انشورنس کی مد میں کتنے پیسے ادا کیے گئے اس حوالے سے ریکارڈ طلب کرلیا۔

(جاری ہے)

کمیٹی کااجلاس سینیٹر محمد اسد علی خان جنیجو کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا جس میں حافظ عبدالکریم ، سینیٹر گیان چند ، سینیٹر بریگیڈیئر (ر)جان کینتھ ولیمز اور سینیٹر لیاقت خان ترکئی نے شرکت کی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دنیا میں ٹرینوں کا اہم کردار رہا ہے اور دنیا کی زیادہ تر آبادی ٹرینوں پر سفر کرتی ہے ، سی پیک سے پاکستان ریلوے میں بڑی حد تک بہتری آئے گی ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان ریلوے پہلے سے کافی بہتر اور ٹرینیں چلتیں نظر آرہی ہیں ۔ریلوے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2011-12 میں ریلوے کی آمدنی 15ارب روپے تک چلی گئی تھی یہ بہت بری صورتحال تھی اور اب ریلوے کی آمدنی 50 ارب روپے ہو گئی ہے ، ریلوے کا 25سالا پلان بنا دیا گیا ہے اور ریلوے کے پاس اس وقت468 لوکوموٹو ہیں اور 528 ریلوے اسٹیشن ، آٹھ ہسپتال ، 32ڈسپنسریاں ، 1717مسافر ٹرینیں ، 7791 روٹ کلومیٹر کا ٹریک ہے جبکہ 11778 ٹریک کلومیٹر ہیں،15407گڈز ویگنز ہیں ، مسافر ٹرینیں112روزانہ چلتی ہیں اور ایک لاکھ 25ہزار پنشنرز ہیں،96765 منظور شدہ آسامیاں ہیں جبکہ 76076ملازمین کام کررہے ہیں جن میں تقریباً20ہزار ملازمین کی کمی ہے۔

بعض جگہوںپر ہسپتالوں میں سٹاف نہیں ہے ، عید پر 65سال سے اوپر والے شہریوں کیلئے فری سفر کردیا گیا ہے ، ای ٹکٹنگ نظام کے تحت 10ہزار ٹکٹس روزانہ فروخت ہورہے ہیں۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ 2012ء میں 188اور 2017-18ء میں 217لوکوموٹو ہیں ۔سیکرٹری ریلوے نے مزید بتایا کہ ایک سال کے اندر ٹرینوں میں ٹریکر سسٹم لگا دیا جائے گا جس سے ٹرین کی سپیڈ اور لوکیشن کا پتہ چل سکے گا۔

آئی جی ریلوے نے بتایا کہ ہمارا 327کا ایک گروپ جو ٹرینوں کی مانیٹرنگ کے حوالے سے کام کررہاہے اور ہمارے کمانڈوز ٹرینوں میں بیٹھ ہوتے ہیں اور کوئلے کی ٹرینوں کیساتھ بھی کمانڈوز کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔سینیٹر جان کینتھ ولیمز نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک ریلوے کے حالات ٹھیک نہیں ہوئے جس پر سیکرٹری نے کہا کہ ہمارے 15ملین مسافر جو واپس ٹرین پرآئے ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں ہماری 90ہزار326 ایکڑ زمین ہے ، سندھ میں 39ہزار428 ، بلوچستان میں 28428جبکہ کے پی کے میں9707ایکڑ زمین ہے ، ایک لاکھ 76ہزار690کلومیٹر ریلوے کی کل زمین ہے ۔ریلوے کی زمینوں پر قبضے کے حوالے سے سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا جس کا فیصلہ 31مئی2018ء میں آیا اس فیصلے کے تحت 3847ایکڑ زمین واہگزار کرائی گئی جس کی مالیت18ارب79کروڑ10لاکھ کے قریب بنتی ہے اب بھی چار ارب دس کروڑ مالیت کی زمین پر لوگ قابض ہیں۔

سیکرٹری ریلوے نے کمیٹی کو بتایا کہ جتنی ہم محنت کرکے بہتری لاتے ہیں اتنی ہی ہر سال پنشرز کی پنشن بڑھ جاتی ہے اگر پنشن حکومت ادا کردے تو ہمیں سات ارب روپے کی سبسڈی درکار ہو گی ۔انہوں نے بتایا کہ ایم ایل ون ایک ہزار872کلومیٹر ہے جو کراچی ، روہڑی ، خانیوال ، لاہور ،راولپنڈی ، پشاور اور حویلیاں تک ہے ، ایم ایل ٹو ایک ہزار254کلومیٹر ہے جو کوٹری ، دائود ، جیکب آباد ، ڈی جی خان ، کندیاں اور اٹک تک ہے ، ایم ایل تھری روہڑی ، سکھر ، سبی ، کوئٹہ ،دالبندین اور تفتتان تک ہے جس کی لمبائی967کلومیٹر ہے ، ایم ایل ون پر ٹرین 120 سے 160کلومیٹر کی سپیڈ سے چلتی ہے اور ایم ایل ٹو پر 80کلومیٹر سپیڈ سے چلتی ہے اور ایم ایل ون ، ٹو اور تھری تینوں سی پیک کا حصہ بن گئے ہیں۔ طارق ورک

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں