وفاقی محتسب نے قیدیوں کی زندگی بہتر بنانے کیلئے سفارشات پیش کردیں

جیل اور کورٹ کے درمیان بائیومیڑک سسٹم کی تشکیل ،قیدیوں اور جیل ریکارڈ کو کمپوٹرائزڈ کر نے پر زور منشیات استعمال کرنے اور ذہنی مریض قیدیوں کو جیل سے باہر رکھنے،قیدیوں کی تعلیم اور اسکلز ٹریننگ کیلئے معاونت فراہم کرنے کا حکم دیا جائے ، پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسل کو مشورہ دیا جائے کہ وہ قیدیوں کو فری قانونی معاونت فراہم کریں، سفارشات میں استدعا

ہفتہ 22 ستمبر 2018 21:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 ستمبر2018ء) وفاقی محتسب سیکریٹریٹ نے سپریم کورٹ کو پیش کردہ سفارشات میں استدعا کی ہے کہ وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور دیگر سرکاری جامعات کو مختلف جیلوں میں زیر حراست قیدیوں کی تعلیم اور اسکلز ٹریننگ کے لیے معاونت فراہم کرنے کا حکم دے۔رپورٹ کے مطابق وفاقی محتسب کے وکیل حافظ احسان احمد کھوکھر کی جانب سے سفارشات اس وقت پیش کی گئیں جب عدالت عظمیٰ نے جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار سے متعلق ازخود نوٹس لیا۔

آخری سماعت میں احسان احمد کھوکھر نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ مجموعی طور پر 98 جیلوں میں 78 ہزار قیدی ہیں جبکہ مذکورہ جیلوں میں 63 ہزار 532 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔

(جاری ہے)

اس حوالے سیانہوں نے مزید بتایا کہ 1 ہزار 955 خواتین، 25 ہزار 195 قیدی، 48 ہزار 780 انڈر ٹرائل، 1 ہزار 225 بچے قیدی اور 4 ہزار 688 دیگر مجرم ہیں۔وفاقی محتسب نے صوبوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جیلوں میں قیدیوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دیں جس میں خصوصی توجہ خواتین اور بچوں پر ہونی چاہیے۔

اس ضمن میں مزید کہا گیا کہ ضلعی انتظامیہ بھی عدالتی حکم پر اپنے متعلقہ ضلع میں کمیٹیوں کی نگرانی کرے اور کسی بھی غفلت کی صورت میں ہوم ڈپارٹمنٹ یا آئی جی جیل خانہ جات کو مطلع کریں۔کمیٹی سے متعلق کہا گیا کہ اس میں سول سوسائٹی، بار ایسوسی ایشن، تعلیم اور صحت کے شبعوں سے لوگ شامل ہوں گے جو پہلے سے ہی قیدیوں کی زندگی بہتر بنانے میں کوشاں رہے ہوں۔

وزارت داخلہ اور صوبائی ہوم اور جیل ڈپارٹمنٹ اپنے اداروں میں سینئر افسر کو بطور فوکل پرسن نامزد کریں تاکہ وہ مختلف امور میں کمیٹی کے اراکن کی مدد کر سکے۔سفارشات میں زور دیا گیا کہ جیل اور کورٹ کے درمیان بائیومیڑک سسٹم تشکیل دیا جائے جو قیدیوں کے ریکارڈ قائم کر سکے۔اس ضمن میں کہا گیا کہ پیشی روسٹر اور جیل ریکارڈ کو کمپوٹرائزڈ کیا جائے جس میں نادرا سمیت دیگر متعلقہ ادارے شامل ہوں گے۔اسی طرح منشیات استعمال کرنے والے اور ذہنی مریض قیدیوں کو جیل سے باہر رکھا جائے اور ان کی صحتیابی کیلئے باقاعدہ طبی سہولیات فراہم کی جائے۔محتسب نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسل کو مشورہ دیا جائے کہ وہ قیدیوں کو فری قانونی معاونت فراہم کریں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں