ایوان بالا میں گردشی قرضوں کے بارے میں کمیٹی کی عبوری رپورٹ پیش کر دی گئی

پیر 24 ستمبر 2018 18:11

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 ستمبر2018ء) ایوان بالا میں گردشی قرضوں کے بارے میں کمیٹی کی عبوری رپورٹ پیش کر دی گئی ہے جس پر (کل) منگل کو بحث کی جائے گی۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران کنوینئر خصوصی کمیٹی برائے گردشی قرض سینیٹر شبلی فراز نے گردشی قرضوں کے بارے میں کمیٹی کی عبوری رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمیں بھاری گردشی قرضوں کا مسئلہ درپیش ہے، توانائی کے شعبہ میں آپس میں کوئی ربط نہیں ہے، ایک ادارے کو دوسرے ادارے کا کچھ علم نہیں ہے، زیادہ توجہ جنریشن پر مرکوز رہی، ڈسٹری بیوشن اور دیگر شعبوں پر کوئی توجہ نہیں رہی، موجودہ حکومت کمیٹی کی سفارشات کو زیر غور لائے گی، اس پورے شعبے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔

کوئٹہ میں 183 ارب روپے زرعی ٹیوب ویلوں کی مد میں آئوٹ سٹینڈنگ ہیں۔

(جاری ہے)

سبسڈی کے طور پر حکومت بڑی رقم دیتی ہے، اس سے پانی کی سطح بھی نیچے گر رہی ہے، یہ نقصان دہ صورتحال ہے، کمیٹی نے اس صورتحال کے حل کے لئے سفارش پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ پیسکو اور دوسری کمپنیوں کے حوالے سے بھی سفارشات پیش کی ہیں، ہمارا زیادہ دارومدار فیول سے بجلی کی پیداوار پر ہے، یہ فارن ایکسچینج کا بہت بڑا ضیاع ہے، قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر سابق حکومت نے کام روک دیا، اس سے سولر، ونڈ اور دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے سرمایہ دار پھنس گئے۔

حکومت ان منصوبوں کو نہ روکنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے۔ پاور سیکٹر سے ہماری اکنامک سیکورٹی وابستہ ہے، ہر چیز میں مافیاز ہیں جو ان چیزوں کو آگے بڑھاتے ہیں جس میں ان کے مفادات ہیں۔ سرکلر ڈیٹ 1.2 ارب ڈالر کا ہے جس کا حل نکالنا ہوگا۔ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حقیقی ہے، اس کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ٹارچ کے ذریعے بجلی دکھائی گئی، ہم نے ہر ایک کو بجلی دی، ہمیں ملک بچانے کے لئے سیاسی فیصلے نہیں حقیقی فیصلے کرنا ہوں گے۔

کمیٹی کی اس رپورٹ پر بحث ہونی چاہئے۔ آج تک کسی کمیٹی نے ایسی رپورٹ نہیں بنائی۔ چیلنج کرتے ہیں کہ اس رپورٹ پر ماہرین بحث کرلیں ہر چیز حقائق کے مطابق ملے گی۔ ہم نے حقائق کو مدنظر رکھ کر رپورٹ پیش کی ہے۔ سینیٹر کودا بابر نے کہا کہ کمیٹی نے ماہرین کو بلا کر تفصیلی بحث کے بعد یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔ مسئلہ کرپشن کا ہے، لائن مین سے لے کر چیف تک ایک چین بنی ہوئی ہے۔

بجلی کمپنیوں کے اپنے لوگ بل نہیں دیتے تو کون دے گا، یونینز اتنی مضبوط ہیں کہ ایکسین اور چیف ان کے آگے بے بس ہیں۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ بہت سے سینیٹرز جو اس شعبے کے ماہر ہیں وہ کمیٹی میں نہیں تھے، وہ بھی اب رپورٹ پیش ہونے کے بعد اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ واپڈا کے اہلکار دوسرے گھروں کو بھی فری بجلی دے کر ان سے پیسے لیتے ہیں۔ کمیٹی کی رپورٹ کو آگے بڑھایا جائے۔

رخسانہ زبیری نے کہا کہ پانی اور توانائی کا شعبہ ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ کمیٹی نے بہترین کام کیا ہے جس پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ کمیٹی میں اگرچہ ہمیں بولنے نہیں دیا گیا لیکن کمیٹی کی رپورٹ بہت اچھی ہے۔ رپورٹ پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ پورے بلوچستان کو چھ گھنٹے بجلی دی جاتی ہے۔ اس چھ گھنٹے کے قرضے 233 ارب روپے بن رہے ہیں، ہمارے پاس 33 ہزار ٹیوب ویل ہیں، 10 ہزار زمیندار یہ بجلی استعمال کر رہے ہیں۔

29 ارب روپے سبسڈی کی مد میں دیئے جا رہے ہیں۔ 67 ارب روپے سے ان ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے 500 میگاواٹ بجلی نیشل گرڈ کو بھی حاصل ہوگی، اس تجویز پر غور کیا جائے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ رول 196 کے تحت اس رپورٹ پر بحث کا وقت مقرر کیا جائے۔ اس پر ابھی بحث شروع کر دی گئی ہے۔ قائد ایوان نے تجویز سے اتفاق کیا اور کہا کہ اس کو پڑھ کر رپورٹ پر بحث کی جا سکتی ہے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ یہ رپورٹ اہم ہے، اس پر سیر حاصل بحث ہونی چاہئے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ کل سے اس پر بحث کی جائے گی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں