ہمارے نظام میں گردشی قرضوں کے خاتمے کا میکنزم نہیں،کا ذمہ دار صرف سرکاری ادارے نہیں،

بعض نجی کمپنیاں بھی ذمہ دار ہیں،اپوزیشن سینیٹرز ارکان نے اس رپورٹ کو صحیح طرح نہیں پڑھا،اگر بغور مطالعہ کیاجاتا تو اعتراضات کی ضرورت نہ پڑتی، قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز

منگل 25 ستمبر 2018 20:43

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 ستمبر2018ء) سینیٹر رحمن ملک نے کہا ہے کہ گردشی قرضے کس وجہ سے بڑھے ہیں ان وجوہات کا بھی معلوم ہونا ضروری ہے،اس کا ذمہ داری صرف سرکاری ادارے نہیں،بعض نجی کمپنیاں بھی ذمہ دار ہیں،بجلی کی 20سے 25 فیصد چوری ہوہی ہے تو یہ کس کھاتے میں جارہی ہے، کس کو ان چوروں کو فائدہ ہو رہا ہے،بجلی چوری کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لانے کیلئے کیا قانون حرکت میں آئے گا بلوچستان میں جووانی سے لیکر گوادر تک کوئی پاور اسٹیشن نہیں،اس گردشی قرضوں سے صوبوں پر کیا اثر پڑیں گی اسکا سوچنا ہوگا،سندھ میں ونڈ انرجی کی پیداواری صلاحیت سب سے زیادہ ہے،پنجاب میں اس کی پیداوار سندھ سے نہیں ہو سکتا۔

رحمن ملک نے کہاکہ پنجاب سے سرمایہ کار بھاگ گئے ،جن چیزوں سے صوبوں میں نفرت بڑھیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے،جن لوگوں کی وجہ سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا ن کو تفتیش کیلئے ایف آئی کے حوالے کیا جائے اور جو ذمہ دار ہیں ان کو سزائیںدی جائیں۔

(جاری ہے)

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ موجودہ حکومت سے توقع تھی کہ گردشی قرضوں کے خاتمے اور معیشت کی بہتری کیلئے انقلابی اقدام کرے گی،گردشی قرضوں میں اضافے کی مکمل ذمہ داری موجود حکومت پر نہیں ڈال رہے،حکومت کو مکمل وقت ملنا چاہیے تاکہ اپنے وعدوں پر عمل درآمد کر سکیں،بد قسمتی سے حکومت نے اپنے آغاز پر ہی غریبوں کو نشانہ بنایا،غریبوں کیلئے ٹیکسز میں اضافہ کردیا،ہمارے اداروں کی وجہ سے ملکی قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سراج الحق نے کہا کہ گیارہ ہزار بجلی پیدا کرنے کے دعوے کیے گئے مگر اس سے دور دراز کے علاقوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا،احتساب کے نظام کے بغیر ملک و قوم ترقی نہیں سکتا۔سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ قردشی قرضے روز بروز بڑھ رہے ہیں،ہمارے اداروں کی کمزریوں کو کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتے،بیوروکریسی پر حکومتوں کا کنٹرول ہی نہیں ہوتا، گڈ گورننس نام کی کوئی چیز نہیں، ہمارے سسٹم میں گردشی قرضے کم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں،چھوٹے صوبوں کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے،بلوچستان میں بہت سے علاقوں میں آج بھی صرف چھے گھنٹے بجلی ملتی ہیں،گیارہ ہزار بجلی کہاں گئی پتہ نہیں،ماربل چاغی اورنوشکی میں پیدا ہوتی ہے مگر ماربل سٹی کراچی میں بنتی ہے،حکومتوں نے بلوچستان کے وسائل پر توجہ دی مگر لوگوں کی فلاح وبہبود پر کوئی توجہ نہیں دی۔

سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ ہائیڈرل منصوبوں پر دو روپے فی یونٹ سے کم ہے،سندھ میں چھ سال پہلے سولر پاورز لگائے گئے جس کی قیمت 24روپے فی یونٹ تھی،نندی پور سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت16 روپے فی یونٹ سے زیادہ تھی،گلگت بلتستان میں بونجی ڈیم سی7ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے،مکران میں پاکستان کا بجلی ہی نہیں،ایران سے بجلی درآمد کی جاتی ہے،پاور ڈویژن میں ایک ابھی انجینئر نہیں۔

سینیٹر شمیم آفریدی نے کہا کہ بجلی پوری ہے مگر ڈسٹری بیوشن کا مسئلہ ہے،جتنا کام ان کاغذ کی تیاری پر کیا ہے اتنا کنڈے ہٹانے میں کرتے تو گردشی قرضے کا مسئلہ حل ہوتا،یہ ایوان بالا ہے یہاں صرف بالا بالا باتیںہوتی ہیں،پاکستان میں بلنگ کا نظام ٹھیک ہو جائیں تو گردشی قرضے ختم ہو جائیں گے۔سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ گردشی قرضے فوری اداہونے چاہئیں،لگتا ہے حکومت تین سال تک الزام لگاتے ہوئے گزارے گی، ن لیگ کی حکومت نے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر کے ملک میں ہر طرف اجالا کیا، جہاں کہیں تھوڑی بہت لوڈشیڈنگ ہے تو وہ حکومت کی نالائقی ہے۔

قائد ایوان و کنوینئر کمیٹی سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ افسوس ہوا کہ ارکان نے اس رپورٹ کو صحیح طرح نہیں پڑھا،اگر بغور مطالعہ کیاجاتا تو اعتراضات کی ضرورت نہ پڑتی، ہمیں ملک کی خزانہ کے نقصان کا اندازہ ہے۔قبل ازیں اجلاس میں شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں سے کے ساتھ تصادم میں شہید ہونے والے آرمی کے سات جوانوں کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں