سینیٹ قائمہ کمیٹی ایوی ایشن کا اجلاس

نیو اسلام آبا د ایئر پورٹ کے لاؤنج میں داخل ہوتے ہی 500 روپے وصول کر لیے جاتے ہیں،سامان گاڑی تک چھوڑنے کے بھی 500 روپے لیتے ہیں،سینیٹر مولا بخش چانڈیو /سینیٹر مظفر حسین شاہ اراکین کمیٹی کی تمام شکایات درست ہیں مگر ایئر پورٹ کا افتتاح وقت سے پہلے کر دیا گیا تھا نیا سٹاف بھرتی نہیں ہو سکا ، سٹاف دیگر ایئر پورٹس سے حاصل کیا گیا ہے،سیکرٹری ایوی ایشن کمیٹی نے بزرگ شہریوں کیلئے ایک لاؤنج بنانے کی بھی سفارش کر دی

منگل 25 ستمبر 2018 21:04

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 ستمبر2018ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی ایوی ایشن کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان کی زیر صدارت نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے کیمپ آفس ہال میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گزشتہ اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد ، سینیٹر مولا بخش چانڈیو کے سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے نیو اسلام آبا د ایئر پورٹ پر سہولیات کی کمی اور بد انتظامی ، نیو اسلام آبا د ایئر پورٹ پر اے ایس ایف سٹاف کیلئے رہائشی کیمپس کی تعمیر ، ذیلی کمیٹی برائے ایوی ایشن کی رپورٹ کے علاوہ شاہین ایئر لائن کی حجاج کیلئے پروازیں اور درپیش مسائل کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

سینیٹر مولا بخش چانڈیو اور سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ نیو اسلام آبا د ایئر پورٹ کے لاؤنج میں داخل ہوتے ہی 500 روپے وصول کر لیے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

سامان گاڑی تک چھوڑنے کے بھی 500 روپے لیتے ہیں۔ پاکستانیوں کیلئے روانگی کاؤنٹر صرف دو ہیں باقی سب غیر ملکیوں کیلئے ہیں۔ ریسٹورنٹ ، دکانیں نہیں ہیں۔ اور پارلیمنٹرین کے ٹکٹ کو ان کا سسٹم قبول ہی نہیں کرتا ہم واؤچر کے ذریعے آتے جاتے ہیں۔

جس پر سیکرٹری ایوی ایشن محمد ثاقب عزیز نے کہا کہ اراکین کمیٹی کی تمام شکایات درست ہیں مگر ایئر پورٹ کا افتتاح وقت سے پہلے کر دیا گیا تھا نیا سٹاف بھرتی نہیں ہو سکا ، سٹاف دیگر ایئر پورٹس سے حاصل کیا گیا ہے۔کمیٹی نے بزرگ شہریوں کیلئے ایک لاؤنج بنانے کی بھی سفارش کر دی۔سیکرٹری ایوی ایشن نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ حکومت کی کیبنٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ ایئر پورٹس کی تمام سہولیات کو آؤٹ سورس کیا جائے اور اس حوالے سے ایک ٹینڈر بھی جاری کیا تھا کہ ایک کمپنی ایئر پورٹ کے حوالے سے تمام سہولیات فراہم کرے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایئر پورٹ کو اندر سے بھی پرکشش بنایا جائے اس کیلئے پرائیوٹ کمپنیوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ سینیٹر فدا محمد کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ پشاور ایئر پورٹ کا90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ اکتوبر کے آخر میں تمام کام مکمل ہو جائے گا۔ اے ایس ایف سٹاف کے رہائشی بلاکس کی تعمیر کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 20 ایکڑ زمین پر بلاکس تعمیر کیے جائیں گے جس میں ٹرینگ گراؤنڈ ، ایڈمن بلاک ، میڈیکل سینٹر اور ایک بڑی مسجد بھی شامل ہے۔

2577 افراد کیلئے بلاکس تعمیر کیے جارہے ہیں۔1400 لوگ منتقل ہو چکے ہیں بقیہ پرانے کیمپس میں ہیں۔66 ملین کا کیس وزارت خزانہ میں بھیجا ہوا ہے مگر ابھی تک فنڈ فراہم نہیں کیا گیا۔قرض لے کر کام کیا جارہا ہے جس پر قائمہ کمیٹی نے وزارت خزانہ سے فنڈ کی سفارش کر دی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2038 ملین کا منصوبہ تھا جو بعد میں ترمیم سے 2696 ملین کا ہوگیا اس میں کچھ چیزیں شامل کی گئی تھیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ امانت حسین کنسٹرکشن کمپنی نے 40 کروڑ کم کی بڈنگ دی تھی۔اس کمپنی کو 1622 ملین کا ٹھیکہ دیا گیا جس نے 1066 ملین کا کام کر دیا ہے منصوبے کی72 فیصد پراگرس ہے۔جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ کمپنی نے ایک مخصوص حد سے نیچے ٹینڈر دیا تھا وہ بھی پاکستان کے باشندے ہیں ان کے مسئلے کو حل کیا جائے اور وزیراعلیٰ پنجاب سے ان کو مراعات دینے اور ٹیکس کم کرنے کی سفارش کی جائے گی۔

کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں امانت حسین کمپنی سے اس حوالے سے بریفنگ لینے کا فیصلہ بھی کیا۔ کمیٹی اجلاس میں ذیلی کمیٹی برائے سول ایوی ایشن کی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔شاہین ائیر لائن کی حجاج کیلئے پراوزوں کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن حسن بیگ نے کمیٹی کو بتایا کہ شاہین ایئر لائن کو حج کا 30 ہزار کا کوٹہ دیا گیا تھا سعودی عرب میں ان کی کچھ ادائیگی کے مسائل تھے جس کی وجہ سے انہیں اجازت نہیں ملی پاکستان کی وزارت مذہبی امور نے کوٹہ کم کر کے پہلے 22 ہزار اور پھر 11 ہزار کر دیا پھر بھی بہتری نہ ہونے پر بلوچستان سے 5 ہزار حاجیوں کو ملتان اور کراچی پہنچانے کا کہا گیا ان کے لیز کے جہازوں کی ادائیگی کے مسائل تھے۔

کمیٹی اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ شاہین ایئر لائن کا صرف ایک جہاز ہے اور 1150 حجاج ابھی سعودی عرب ہیں جن کو کمپنی نے لانا ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ پی آئی اے کے خلاف میڈیا میں بڑی خبریں آتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ منی لانڈرنگ اور اسمگلنگ میں پی آئی اے کا عملہ استعمال ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایئر لائن کی اصل کمائی کارگو سے ہوتی ہے۔

مارکیٹنگ اور انجینئرنگ سے اہم شعبے ہیں اگر مارکیٹنگ اور صحیح فیصلے کیے جائیں اور اندر کی خبریں لیک نہ ہوں تو خسارے ختم ہو سکتے ہیں۔ انجینئر نگ کے پارٹس میں بڑی خر د برد کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ایئر پورٹ پر سہولیات کو آؤٹ سورس کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا عملہ بھی کم ہوتا ہے۔ پاکستان میں آمدن کا سب سے کم ملازمین پر خرچ کیا جاتا ہے۔

انہوں کہا کہ ٹرپل سیون جہاز کی فرنیشنگ کیلئے 7 ارب روپے دیئے گئے جو ایک بندہ فراڈ کر کے بھاگ گیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ پی آئی اے کا مسئلہ سٹاف کی زیادتی نہیں بلکہ پرزوں کی چوری اور انتہائی مہنگے داموں فراہمی ہے۔ جبکہ سیکرٹری ایوی ایشن محمد ثاقب عزیز نے کہا ہے کہ اسلام آباد ائیرپورٹ کے سارے مسائل اس کا عجلت میں افتتاح ہے۔

اور سول ایوی ایشن نے شاہین ائیر لائن کو نہ صرف اپنا ڈیفالٹر قرار دیا بلکہ کمیٹی کو بتایا کہ مذکورہ ائیر لائن سعودی عرب ایوی ایشن کی بھی مقروض ہے اور اس ائیر لائن کو غیر سنجیدگی سے چلایا جارہا ہے جس کی وجہ نہ یہ لیز حاصل کرنے کا کرایہ ادا کر سکے ہیں بلکہ اب ان کے پاس صرف ایک جہاز رہ گیا ہے۔ ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس نے ذمہ دریوں کی ادائیگی میں پیش آنے والے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی گرانٹ نہ ملنے کی وجہ سے قرضہ لے کر اپنے روز مرہ کے امور چلا رہے ہیں جبکہ ائیرپورٹ پر رہائشی کیمپ کی تعمیر میں تاخیر سے بھی مسائل پیش آرہے ہیں۔

اجلاس میں سینیٹر فدا محمد‘ حاصل خان بزنجو ‘ سید مظفر حسین ‘ مولا بخش چانڈیو ‘ ڈی جی سو ایوی ایشن حسن بیگ ‘ پی آئی اے کے سٹیشن منیجر تاجور اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں