بلوچستان کے مقابلے افراد نے پانی کی کمی سے نمٹنے کیلئے صوبے میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا فیصلہ کرلیا

ڈیلے ایکشن ڈیم بنانے پر کل 21 لاکھ روپے کی لاگت آرہی ہے اور تین ماہ میں اسٹرکچر تیار ہوجائے گا ،ْ آغا محم د

منگل 16 اکتوبر 2018 16:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2018ء) بلوچستان کے مقابلے افراد نے پانی کی کمی سے نمٹنے کیلئے صوبے میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا فیصلہ کرلیا ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سخت موسموں سے مقابلہ کرنے والے سخت جان مقامی افراد نے حالات سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے اور بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے ساتھ مل کر پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر کام شروع کردیا ہے جس کی ایک مثال ضلع پشین کلی زرغون میں بننے والا ڈیلے ایکشن ڈیم ہے۔

آغا محمد جو یونین کونسل خوشاب ضلع پشین کی مقامی معاون تنظیم کے صدر بھی ہیں، اس منصوبے کے حوالے سے بہت پر امید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیلے ایکشن ڈیم بنانے پر کٴْل 21 لاکھ روپے کی لاگت آرہی ہے اور تین ماہ میں اسٹرکچر تیار ہوجائے گا۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہا کہ اس میں کمیونٹی کا شیئر بھی ہے اور لیبر بھی ہے، اس لیے یہ سستا بن رہا ہے اور اس ایک چھوٹے ڈیم سے 4 سے 5 گاؤں کو فائدہ ہوگا۔

موسمیاتی تبدیلیوں اور درختوں کی کٹائی سے بلوچستان کے موسموں کا پیٹرن بھی بدل گیا ہے ،ْ پہلے پہل زیارت اور کوئٹہ میں 17 سے 18 فٹ برف باری ہو جاتی تھی مگر اب کبھی برف پڑ بھی جائے تو ایک سے ڈیڑھ فٹ سے ذیادہ نہیں ہوتی۔ گزشتہ 40 سال سے سبی کا علاقہ بلوچستان کا گرم ترین ضلع ہوتا تھا اور اب پچھلے 2 سے 3 سال میں تربت سب سے گرم علاقہ بن گیا ہے، جہاں درجہ حرارت 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا۔

زیارت میں 2 برس میں واٹر ٹیبل 200 فٹ نیچے آگیا ہے ،ْاس کے علاوہ نوشکی، وارشک، آواران، خاران، تربت اور پنجگور میں بھی خشک سالی تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہے جبکہ مون سون زون میں واقع ہونے کے باوجود لورالائی کا واٹر ٹیبل نیچے آ رہا ہے اس حوالے سے ماحولیاتی پروٹیکشن ایجنسی ای پی اے بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل طارق زہری نے بتایا کہ جو پانی ہمارے پاس آ رہا ہے، ذخائر نہ ہونے کے باعث اس کا 80 فیصد ضائع ہو رہا ہے، ہم ضائع ہونے والا 30 سے 40 فیصد پانی صرف 200 ارب روپے میں محفوظ کر سکتے ہیں اور اس سے پانی کا گرنے والا واٹر لیول اوپر آ جائے گا۔

انہوںنے کہا کہ آنے والے 5 برسوں میں تمام صوبے اور فیڈریشن اپنے کٴْل بجٹ کا کم از کم ایک تہائی پانی پر خرچ کریں تو پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، ہم کم وقت میں زیادہ وسائل استعمال کر بیٹھے ہیں اس لیے ہمیں ایک سال میں 3 سال کا کام کرنا ہے۔بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں ایسے قدرتی لینڈ اسکیپ موجود ہیں جس میں پانی کے چھوٹے چھوٹے اسٹرکچر بنا کر واٹر ٹیبل اوپر لانے میں مدد مل سکتی ہے، جس سے بلوچستان کا آبپاشی کا مقامی ذریعہ کاریز، جو خشک ہونے لگا ہے، وہ بھی دوبارہ چل پڑے گا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں