سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکریٹریٹ کا اجلاس

نیپرا کے کام کے طریقہ کار، کارکردگی، مختص اور استعمال شدہ بجٹ، انتظامی ڈھانچہ اور ملازمین کی تعداد کے علاوہ نیپرا سے ڈیسکوز کی کارکردگی بارے تفصیلی بریفینگ دی گئی

منگل 16 اکتوبر 2018 20:56

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اکتوبر2018ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکریٹریٹ کا اجلاس سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قومی ادارہ برائے بجلی و توانائی ریگولیٹری(نیپرا) کے کام کے طریقہ کار، کارکردگی، مختص اور استعمال شدہ بجٹ، انتظامی ڈھانچہ اور ملازمین کی تعداد کے علاوہ نیپرا سے ڈیسکوز کی کارکردگی بارے تفصیلی بریفینگ دی گئی۔

چیئرمین نیپرا نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کاری کے قوانین ایکٹ 1997ء کے تحت یہ ادارہ قائم کیا گیا۔ ایکٹ کے مطابق نیپرا پاکستان میں بجلی کی فراہمی کی ریگولیشن کا بااختیار ادارہ ہے۔

(جاری ہے)

اپریل 2018ء میں ترمیمی ایکٹ پاس کیا گیا جس کے مطابق آزاد مارکیٹ، فریم ورک کی ترقی اور مارکیٹ میں مقابلے کا رجحان، تقسیم کار کمپنیوں کے تار کے ذریعے فروخت کے کاروبار کو الگ الگ کر دیا گیا۔

نیپرا بنیادی طور پر اپنے قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرتا ہے۔ نیپر اکا کام لائسنس کی فراہمی، ٹیرف کا تعین، کارکردگی کا معیار اور صارفین کی شکایات کا ازالہ شامل ہے۔ نیپرا اتھارٹی کا ایک چیئرمین ہے اور چاروں صوبوں سے ایک ایک ممبر شامل ہے۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ صوبہ سندھ کا ممبر 4 ماہ سے اور صوبہ خیبر پختونخوا کا ڈیڑھ ماہ سے ریٹائرڈ ہے مگر ابھی تک تقرری نہیں ہو سکی جس پر قائمہ کمیٹی نے وزیر انچارج کیبنٹ ڈویژن علی محمد خان کو ہدایت کی کہ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کے ساتھ مل کر وزراء اعلیٰ صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا سے مل کر نیپرا ممبران کی میرٹ پر تقرری جلد سے جلد عمل میں لائی جائے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ کوئی بھی کمپنی جو بجلی پیدا کر کے فروخت کرنا چاہتی ہے، وہ نیپرا سے لائسنس حاصل کر سکتی ہے اور پیداوار ی لائسنس ترمیم شدہ ایکٹ کے مطابق پانچ سال کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ نیپرا نے پیداوار، ترسیل اور تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کیلئے ایک معیار مقرر رکھا ہے۔ کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں نوٹس اور جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔

کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ گزشتہ چند سالوں میں تمام ڈیسکوز کو ملکی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا نہ کرنے پر پانچ پانچ ملین جرمانے بھی کئے گئے جس پر قائمہ کمیٹی نے قواعد کے مطابق بجلی پیدا نہ کرنے والی کمپنیوں پر جرمانے کی مد میں اضافے کی سفارش کر دی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں نیپرا کو 26314 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 25701 حل کر لی گئیں۔

نیپرا کی314 ملازمین سے 102 پیشہ وارانہ بشمول چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس، انتظامی اکاؤنٹنٹس، انجینئر، قانونی ماہرین اور آئی ٹی کے ماہرین شامل ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں سولر سسٹم کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، گھروں کی چھتوں پر لوگ سولر سسٹم نصب کرا رہے ہیں۔ سولر سسٹم کے ذریعے 12 میگاواٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ وزیر انچارج کیبنٹ ڈویژن نے کمیٹی اجلاس میں انکشاف کیا کہ ملک میں30 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد موجود ہے مگر بد قسمتی سے ٹرانسمیشن لائنوں پر کسی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے ٹرانسمیشن لائن صرف20 ہزار میگاواٹ کا لوڈ اٹھا سکتی ہیں۔

ٹرانسمیشن لائنز بہت اہم ہیں۔ موجودہ حکومت ٹرانسمیشن لائنز کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ ٹرانسمیشن لائن کی بہتری پر اگر توجہ دی جاتی تو نہ ہی ملک میں اندھیرے ہوتے اور نہ ہی صنعت تباہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے شارٹ فال کی وجہ سے ایکسپورٹ امپورٹ میں کئی گنا فرق آگیا ہے۔

امپورٹ 55 ارب کو پہنچ گئی جبکہ ایکسپورٹ 20 ارب سے بھی کم ہو گئی اگر مزید آنکھیں بند رکھی گئیں تو ملک کو تباہ کرنے کے مترادف ہوگا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں 5 گرڈ اسٹیشن بنانے تھے جو آج تک مکمل نہیں ہو سکے جس پر چیئرمین کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں متعلقہ وزیر سے اس حوالے سے بریفنگ لینے کا فیصلہ بھی کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں 27 ملین بجلی کے صارفین ہیں، 85 فیصد بجلی گھریلو استعمال، 11فیصدکمرشل، صنعت 1.2 فیصد اور زراعت میں1.8 فیصد استعمال ہوتی ہے۔

مجموعی بجلی کا 50 فیصد گھروں میں استعمال ہوتا ہے جبکہ صنعتی شعبے میں25 فیصد استعمال ہوتی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بجلی پیدا ہونے سے صارفین تک پہنچنے میں ٹیکنکل نقصانات 13 فیصد تھے ، کچھ ڈیکسوز کی سیکورٹی کے حوالے 3 فیصد مزید اضافہ کر کے 16 فیصد کر دیا گیا اور 5.6 فیصد بجلی چوری بھی ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں لائن لاسز 10 فیصد سے بھی کم ہیں۔

کمیٹی اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ حکومت کی ہدایت پر ٹیکنکل لاسز 18 فیصد کرنے کر دیے گئے تھے جس کا تمام بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ18 سی16 فیصد ٹیکنکل لاسز کا فرق 22 ارب روپے بنتا ہے جو سرکلر ڈیٹ میں شامل ہوتا ہے۔ وزیر انچارج نے کہا کہ بجلی چوری کے حوالے سے علماء کرام فتویٰ جاری کریں کہ بجلی چوری سے وضو کر کے نماز پڑھنا کس طرح درست ہے اس سے اللہ تبارک تعالیٰ بھی ناراض ہوتے ہیں۔

پارلیمنٹرین اپنے حلقوں میں عوام کو اس حوالے سے شعور دیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پیسکو میں لائن لاسز کی اجازت 31.95 فیصد ہے جبکہ وہاں38.12 فیصد وصول کی جاتی ہے۔ سیپکو میں29.75 فیصد اور وصول36.68 ، حیسکو میں22.59 فیصد اور وصول29.88 فیصد کی جارہی ہے۔ وزیر انچارج نے کہا کہ جلد بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جائے گا یہ سماجی و انتظامی مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ گرمیوں میں اکثر ٹرانسفارمر جل جاتے ہیں پرائیوٹ ورکشاپ سے مرمت کے دوران صحیح تیل نکال کر غیر معیاری ڈال دیا جاتا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ سرکاری ورکشاپس میں اضافہ کیا جائے تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ نیپرا حکام نے انکشاف کیا کہ کچھ علاقوں میں99 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ بنوں میں بجلی چوری کو روکنے کیلئے فیڈرز بند کیے گئے تو لوگوں نے سٹرکیں بلاک کیں اور اسلحہ لے کر گرڈ اسٹیشن کو جلانے کی دھمکی بھی دی۔

کمیٹی کو بتایا گیاکہ بجلی بل ریکوری 90 فیصد ہوتی ہے بقیہ 10 فیصد کا بوجھ بھی عوام پر ڈالا جاتا تھا۔ 400 ارب روپے کے بجلی ڈیفالٹرز ہیں۔96 ارب کی بجلی ریکوری ڈیفالٹرز کے بجلی کنکشن ختم کر دیئے گئے ہیں۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ قانون کے مطابق لائن لاسز 13 فیصد بنتے ہیں اس سے اوپر کسی صارف سے وصول نہ کیے جائیں اور بجلی چوری نقصانات ڈیفالٹر ز سے وصول کیے جائیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے۔

کمیٹی اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں بجلی کی پیدا وار طلب کے مطابق ہے جبکہ ٹرانسمیشن لائنز مطلوبہ لوڈ نہیں اٹھا سکتیں اور ڈیسکوز بھی نئے کنکشن فراہم کرنے میں سستی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ وزیر انچارج نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ نیپرا سے جلد ہی ٹرانسمیشن لائن کو بہتر کرانے ، اصل بجلی لائن نقصانات ، کتنا لوڈ اٹھا سکتے ہیں اور اس کیلئے کتنے فنڈ درکار ہونگے کی سٹڈی کرائی جائے گی اور اس حوالے سے قائمہ کمیٹی کو انڈیا ، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے موازنہ رپورٹ تیار کر کے 6 ہفتوں میں فراہم کی جائے گی۔

قائمہ کمیٹی نے قائد اعظم سولر پاور پلانٹ کی موجودہ صورتحال بارے بھی رپورٹ طلب کر لی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ چین نے 38 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری توانائی کے شعبے میں کرنی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پہلے بجلی ٹیرف 11.75 تھا اور گزشتہ حکومت کی طرف سے نیٹ ہائیڈرل منافع اور کپیسٹی چارجز کی منظوری کے بعد ٹیرف 15.56 فی یونٹ کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ ٹیرف میں3.81 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

کپیسٹی چارجز میں260 ارب روپے بڑھے جبکہ پنجاب کو سابقہ ایریئر 70ا رب اور خیبر پختونخوا کو 80 ارب کی منظوری دی گئی۔ سینیٹر سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ نیپرا کا چیئرمین کتنے عرصے کیلئے ہوتا ہے مستقل تقرر کیوں نہیں کیا جاتا ، پانی ، کوئلہ اور فرنس آئل سے کتنی بجلی تیار کی جاتی ہے اور کن کن اداروں کو مفت بجلی دی جاتی ہے ایک ہفتے کے اندر تحریری جواب فراہم کریں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ عوام پر بجلی چوری اور لائن لاسز کا اضافی بوجھ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ عوام سے قانون کے مطابق لائن لاسز وصول کیے جائیں اور ٹرانسمیشن لائن کو جلد سے جلد بہتر کر کے ملک کو اضافی بوجھ سے نکالا جائے۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز محمد طاہر بزنجو، نصیب الله خان بازئی، سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل، ستارہ ایاز اور ڈاکٹر اشوک کمار کے علاوہ وزیر انچارج کیبنٹ ڈویژن علی محمد خان، سپیشل سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن شائستہ سہیل، ایڈیشنل سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن الیاس خان، چیئرین نیپرا طارق سدوزئی، ڈی جی نیپرا مسعود اختر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں