ای سی ایل میں ناموںکو ڈالنے،نکالنے کا اختیار سیکرٹری داخلہ کے پاس ہونا چاہیے،سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ

ای سی ایل ایک سزا بن گیا ،تفتیش شروع ہوتے ہی بغیر کسی وجہ کے لوگوں کے ناموں کو ای سی ایل پرڈالا جاتا ہے ،اس وجہ سے رشتے ٹوتنے دیکھیں،رحمن ملک طریقہ کار کے ذریعے ملزم کو فرار کا موقع دیا گیا،لوگ مر جاتے ہیں مگر نام ای سی ایل پر ہی رہتا ہے،بورڈنگ کارڈ لینے وقت لوگوں کو پتہ چلتا ہے، عتیق شیخ ڈالے گئے بہت سے لوگوں کو خود پتہ نہیں ہوتاکہ ان کا نام ای سی ایل میں ہیں، ان کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ امیگریشن کرنے جاتے ہیں،سیکرٹری داخلہ کا اعتراف

پیر 22 اکتوبر 2018 19:57

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اکتوبر2018ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ امورنے ای سی ایل میں ناموں کو ڈالنے اور نکالنے کا اختیار وفاقی کابینہ کی بجائے وفاقی سیکرٹری داخلہ کو دینے ، انکوائری کی سطح ، عدالتی حکم سے پہلے دورانِ تفتیش کسی بھی شخص کے نام کو ای سی ایل میں نہ ڈالنے کی سفارش کردی ہے،کمیٹی نے ا ن لوگوں کے ناموں کوفوری طور پر نکالنے کا حکم دیا ہے جو گزشتہ تین سالوں سے ای سی ایل میں ہیں مگر ان کے خلاف عدالت سے کوئی فیصلہ نہیں آیا،کمیٹی نے ای سی ایل اور بلیک لسٹ میں ڈالنے کے طریقہ کار اور ایس او پیز کی ازسرِنو جائزہ کی بھی تجویز دی ہے۔

پیر کو سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین سینیٹر رحمن ملک کی زیر صدارت ہوا،اجلاس میں سینیٹر جاوید عباسی، میاں عتیق شیخ، سینیٹر کلثوم پروین اور محمد شفیق ترین نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے ای سی ایل میں ڈالنے اور نکالنے کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئین پاکستان کسی بھی پاکستانی کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا،تفتیش شروع ہوتے ہی بغیر کسی وجہ کے لوگوں کے نام ای سی ایل پر ڈالا جاتا ہے،اگر کسی نے گھنائونا جرم کیا ہے تو اس کا نام ضرور ڈالیں۔

رحمن ملک نے کہا کہ ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے وفاقی کابینہ کی منظوری کا طریقہ کار درست نہیں،ای سی ایل میں ڈالنے کا اختیار وفاقی سیکرٹری داخلہ کے پاس ہونا چاہیے، اگر کسی کے خلاف انکوائری شروع ہو گئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجرم بن گیا،آج کل ای سی ایل ایک سزا بن گیا ہے،اس وجہ سے رشتے ٹوتنے دیکھے ہیں، نام ڈالنے اور نکالنے کے طریقہ کار سے بظاہر ای سی ایل سیاسی انتقام کے طور پر سامنے آرہا ہے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اس طریقہ کار کے ذریعے ملزم کو فرار کا موقع دیا گیا، وزارت کی طرف سے پہلے سمری کابینہ کو بھیجی جاتی ہے، سمری کی کابینہ سے منظوری تک ملزم ملک سے فرار ہو جاتا ہے۔سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ان لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے جن کو ہم نے بلانا ہیں،ان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کریں گے تووہ پاکستان آئیں گے،لوگ مر جاتے ہیں مگر نام ای سی ایل پر ہی رہتا ہے۔

سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ جب لوگ ائیر پورٹ پر بورڈنگ کارڈ لینے کیلئے جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے نام ای سی ایل میں ہیں،یہ سراسر زیادتی ہے،کوئی بیمارعلاج کی غرض سے جارہے ہو اور ان کے ساتھ یہ سلوک ظلم ہے۔سیکرٹری داخلہ نے کمیٹی میں اعتراف کیا ہے ک ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے گئے ناموں میں بہت سے لوگوں کو خود پتہ نہیں ہوتاکہ ان کا نام ای سی ایل میں ہیں، ان کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ امیگریشن کرنے جاتے ہیں،ای سی ایل میں ڈالنے کے بعد 24گھنٹوں میں متاثرین کو آگاہ کر نے کیلئے ایس او پی تیار کیا جارہا ہے۔

سیکرٹری داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں جہاں جہاںوفاقی حکومت کا ذکر ہوگا،اس کا مطلب وفاقی کابینہ ہوگی،ہم نے طریقہ کار کے حوالے سے کمیٹی بنانے کی سفارش کی ہے،وفاقی حکومت نے 4987افراد کے ناموں کو ای سی ایل سے نکال دئیے ہیں،صرف ان لوگوں کے ناموں کو ای سی ایل میں رکھا گیا جس کا حکم اعلیٰ عدلیہ نے دیا ہو یا کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھتے ہوں یا فورتھ شیڈول میں ہوں۔

کمیٹی کوچیئرمین سی ڈی اے نے بریفینگ دیتے ہوئے کہا کہسی ڈی اے کی طرف سے گرین بیلٹ مختص کیے گئے ہیں، میونسپل کارپوریشن نے کھوکھوں کے لائسنس دیے ہیں، میونسپل کارپوریشن بننے کے بعد پورا ماحولیاتی ونگ انہیں شفٹ کردیا ہے۔میونسپل کارپوریشن کی نمائندہ نے بتایا کہ میئر کے علاوہ کوئی بھی میونسپل کارپوریشن کو نہیں دیکھ رہا، 9 ماہ تک میونسپل کارپوریشن کو نظرانداز کیا گیا،پنجاب حکومت سے ڈیپوٹیشن پر چیف آپریٹنگ آفیسر کو لایا گیا مگر کئی ماہ ہونے کے باوجود تنخواہ ہی نہ دی جاسکی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا 6 ہفتے میں معاملہ حل ہونا چاہیے، اگلی میٹنگ میں سیکرٹری خزانہ کو بلاکر پوچھتے ہیں، قانونی ہاؤسنگ سوسائیٹیزکا مسئلہ نہیں، غیرقانونی کیخلاف کارروائی کی جائے،پہلی پرائیوٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کیسیشروع ہوئی،کس قانون کیتحت بنیادرکھی گئی،جتنی ہاؤسنگ سوسائٹیز ہیں، اگلے اجلاس میں ان کے نمایندوں کو بلایا جائے،کمیٹی سی ڈی اے کی کارکردگی کو باریک بینی سے دیکھ رہی ہے، سی ڈی اے اور ایم سی آئی کے درمیان اختلافات قانونی طور پر ختم کرنا ہونگے، اگلے اجلاس میں سیکرٹری خزانہ کو بلاکر پوچھتے ہیں، ایم سی آئی اور سی ڈی اے کا عدم تعاون عوام کیلیے مشکلات پیدا کر رہاہے۔

سی ڈی اے حکام نے کہا کہ 16 سوسائٹیز کے پلان سی ڈی اے کی اجازت سے قائم ہیں، 41 سے زیادہ غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹیزبھی اسلام آبادمیں موجود ہیں،41 پرائیوٹ ہاؤسنگ سوسائٹیزکااین اوسی سی ڈی ایکے پاس جمع ہے۔اگلی اجلاس میں ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جی ایم آئی، سیکرٹری خزانہ ،چیئرمین سی ڈی اے تفصیلی بریفینگ کیلئے طلب کرلیاگیا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں