جب تک قانون تبدیل نہیں ہوگا سپریم کورٹ شناختی کارڈ سے والد کانام ختم نہیں کر سکتی

سپریم کورٹ نے پندرہ سالہ لڑکی تطہیرفاطمہ کی جانب سے ولدیت کے خانے میں والدہ کا نام درج کرنے سے متعلق مقدمے میں عدالتی معاونین سے حکومتی جائزے کے لئے ٹی اوآرز طلب کرلئے

بدھ 24 اکتوبر 2018 00:50

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 اکتوبر2018ء) سپریم کورٹ نے تطہیرفاطمہ نامی پندرہ سالہ لڑکی کی جانب سے ولدیت کے خانے میں والدہ کا نام درج کرنے سے متعلق مقدمے میں عدالتی معاونین سے حکومتی جائزے کے لئے ٹی اوآر ز طلب کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ جب تک قانون تبدیل نہیں ہوگا سپریم کورٹ شناختی کارڈ سے والد کانام ختم نہیں کر سکتی اورولدیت کا خانہ بھی تبدیل نہیں ہوسکتا۔

منگل کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے تطہیر فاطمہ کی جانب سے دائرآئینی پٹیشن کی اور قرار دیا کہ ولدیت کے بارے میں اٹھائے گئے سولات کا جواب دینا حکومت کی ذمہ داری ہے شریعت ملک کا سپریم قانون ہے اور از روئے شریعت ولدیت کے خانے سے والد کا نام ختم نہیں کیاجاسکتا جبکہ ولدیت کے خانے سے والد کانام نکالنے سے درخواست گزار کوکوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا ، اوربہ باالکل واضح ہے کہ برتھ سرٹفکیٹ سے لے کر نکاح نامہ تک والد کا نام آئے گا۔

(جاری ہے)

عدالت نے تطہیر فاطمہ کی والدہ کی استدعا پر میڈیاکو کیس پر رائے زنی اور سوالات اٹھانے سے بھی روکنے کاحکم دیا ۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایف آئی اے کوہدایت کی گئی تھی کہ وہ درخواست گزار بچی کے والد کی مالی استطاعت معلوم کرکے عدالت کوآگاہ کرے ۔بظاہر ریکارڈ سے نظر آتا ہے کہ والد اخراجات برداشت نہیں کر سکتا، لیکن کیا یہ ہوسکتاہے کہ جب والد کانام معلوم ہو تو اسے شناحتی کارڈ میں ولدیت کے خانہ سے ہٹایا جا ئے ، سماعت کے دوران عدالتی معاون مخدوم علی خان نے سماعت کے دوران موقف اپنایاکہ شناحتی کارڈ پر والد کا نام لکھنا لازم ہے، ریاست معلومات کے لیے والد کا نام تو پوچھ سکتی ہے لیکن ضرروی نہیں کہ اسے سرکاری دستاویزات میں ظاہر بھی کرے، انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائنس میں بھی ولدیت نہیں لکھی جاتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شناختی کارڈ یا سفری دستاویزات پر والد کا نام لکھنا ضروری نہیں لیکن اس کا فیصلہ ریاست نے کرنا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایسی صورت میںیہ کیس اٹارنی جنرل کے ذریعے حکومت کو بھیج دیتے ہیں کیونکہ قانون سازی کے بغیر والد کا نام نہیں ہٹا یاجا سکتا چیف جسٹس نے کہا کہ والد کا نام ہٹانا بچی کے فائدے میں نہیں ، بلکہ یہ ایک جذباتی معاملہ بن جائے گا اورپھردوسری بچیاں بھی شا ید آئیں گی کہ ان کی ولدیت کے خانے سے والد کا نام نکالا جائے،اس سے مسائل پیدا ہوں گے،عدالت کسی کا نام بنت پاکستان نہیں رکھ سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ والد نے بچی کی کفالت نہیں کی اس حد تک تو احتجاج درست ہے لیکن ولدیت کے خانے سے والد کا نام نکالنے سے فائدہ نہیں ہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ بچی نے شادی کرنی ہے، سفر کرنا ہے،نفرت اور خواہش کی بنیاد پر ولدیت ختم نہیں کی جاسکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر والد کا نام شناختی کارڈ سے نکالا جائے تو برتھ سرٹفکیٹ میں کیا لکھیں گے اس دوران بچی کی والدہ فہمیدہ بٹ کا کہنا تھا کہ نادرا کو برتھ سرٹفکیٹ کی بنیاد پر شناختی کارڈ جاری کرنا چاہیے تھا اگر شناختی کارڈ جاری نہیں کیا تو نادرا کی کوتاہی ہے ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ شناختی کارڈ کے لیے والد والدہ کا نام ضروری ہے،نادرا نے کاغذات کی جانچ ضرور کرناہوتی ہے بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ ماں بیٹی زندگی کا بہت برا وقت گزار چکی ہیں ایک باپ شناختی کارڈ میں اپنا نام نہیں دیتا،تطہیر کی شادی تو تب ہو گی جب وہ منہ دکھا سکے گی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایدھی کیس میں عدالتی حکم کی روشنی میں وزارت داخلہ نے نوٹیفیکشن جاری کیا۔ تومخدوم علی خان نے کہا کہ اس ضمن میں وزارت داخلہ کو پالیسی بنانی چاہیے،چیف جسٹس نے کہاکہ اس معاملے میں مخدوم علی خان ٹی او آرز بنا کر دیدیں، مطلب یہ ہے کہ جہاں باپ تسلیم نہ کرے اس بچے کوکوئی شناخت نہیں ملے گی،جو باپ اپنی اولاد کو تسلیم نہ کرے اس کے سنگین نتائج ہوں گے، عدالت قانون کی پابند ہے اور شریعت ملک کا سپریم قانون ہے۔ بعدازاں عدالت نے معاونین مخدوم علی خان اور لطیف کھوسہ سے ٹی او آرز طلب کر تے ہوئے مزید سماعت اگلے ہفتہ تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں