حکومت نے سٹیل ملز کی نجکاری نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نجکاری فہرست سے نکال دیا ہے،خالد بٹ

09 میں پاکستان اسٹیل کو 26ارب سے زائد نقصان کی وجہ سے ادارہ نجکاری فہرست میںشامل ہو گیا تھا ،چیئر مین پاکستان سوشل پروٹیکشن اتھارٹی

پیر 10 دسمبر 2018 22:28

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 دسمبر2018ء) چیئر مین پاکستان سوشل پروٹیکشن اتھارٹی (پی ایس پی اے )خالد بٹ نے کہا ہے کہ مالی سال 2008-2009 میں پاکستان اسٹیل کو 26ارب سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا تھا جس کی وجہ سے سٹیل مل کا نام بھی نجکاری فہرست میںشامل ہو گیا تھا تاہم اب حکومت نے سٹیل مل کی نجکاری نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے نجکاری فہرست سے نکال دیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پاکستان اسٹیل کے سابق چیئرمین معین آفتاب شیخ نے مالی سال 2008 -2009کے دوران عالمی کسادبازاری اور دیگر وجوہات کے باعث متوقع loss سے قبل حکومت وقت سے 20 ارب روپے بیل آؤٹ پیکج کی درخواست کی تھی لیکن اس وقت کی حکومت نے صرف 10ارب روپے کابیل آؤٹ پیکج بھاری سود پر چھوٹی چھوٹی قسطوں میں جاری کیاگیا ۔

(جاری ہے)

اس معاملے پر چیر مین PSPA خالد بٹ نے آن لائن سے گفتگوکرتے ہو کہا کہ ، پاکستان کی موجودہ حکومت نے پاکستان اسٹیل کو نجکاری فہرست سے نکال دیا ہے اور اس کی بحالی کا فیصلہ بھی کیا ھے۔ مالی سال 2008-2009 میں تقریباً 26ارب روپے کاگھاٹا ھوا، حقیقت یہ بھی ھے کہ پاکستان اسٹیل اس سے قبل ھمیشہ آپریشنل پرافٹ میں رہا۔ اس میں کسی کو شک نہیں کہ پاکستان اسٹیل کبھی بھی حکومت پاکستان پر بوجھ نہیں رہا۔

خود کماتا اور اپنے تمام اخراجات پورے کرتا تھا۔ یہ سب ریکارڈ میں موجود ھے۔ پاکستان اسٹیل کے سابق چیئرمین معین آفتاب شیخ نے مالی سال 2008 -2009کے دوران عالمی کسادبازاری اور دیگر وجوہات کے باعث متوقع loss سے قبل حکومت وقت سے 20 ارب روپے بیل آؤٹ پیکج کی درخواست کی تھی لیکن اس وقت کی حکومت نے صرف 10ارب روپے کابیل آؤٹ پیکج بھاری سود پر چھوٹی چھوٹی قسطوں میں جاری کیا۔

اس موقع پر پاکستان اسٹیل کی مشنری/پلانٹ چلانے کے قابل تھا لیکن اس چھوٹی چھوٹی قسطوں والے بیل آؤٹ پیکج سے خام مال یعنی Raw Material درآمد کرنے کے لیے یہ رقم ناکافی تھی اگر 20ارب روپے کا قرض پاکستان اسٹیل کو یکمشت دے دیا جاتا تو مزید بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت پیش نہیں آتی یہ کہنا ھے فولاد سازی سے وابستہ ماہرین کا۔ اس کے بعد جو بھی بیل آؤٹ پیکج دئیے گئے وہ چھوٹی چھوٹی قسطوں میں دیے گئے جس کے باعث مسئلہ کاحل نہیں نکل سکا صد افسوس۔

یاد رہے کہ پاکستان اسٹیل کی تعمیر وتنصیب تقریباً 25ارب روپے میں ھوئی تھی اور پاکستان اسٹیل اب تک تقریباً 1 کھرب 50ارب روپے قومی خزانے میں ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مدات میں کراچکاھے، پاکستان اسٹیل کا شمار ہائسٹ ٹیکس پیئر میں ہوتا رہا ھے۔ پاکستان اسٹیل کی یہ تاریخی حقیقت ھے جس سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔ یہ بھی حقیقت ھے کہ پاکستان اسٹیل جو حکومتی تحوال میں اب تک صرف 11لاکھ میٹرک ٹن سالانہ پیداواری صلاحیت کا حامل ھے جو سب اکنامک ہے۔

پاکستان اسٹیل کا انفراسٹرکچر 30لاکھ میٹرک ٹن سالانہ پیداواری استعداد/صلاحیت کا اب بھی موجود ھے۔ اب جبکہ پاکستان اسٹیل کے ٹوٹل ملازمین کی تعداد تقریباً ساڑھے 10ہزار تک رہ گئی ھے کیونکہ بتدریج انجنئیرز، انتظامی افسران، ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل افرادی قوت ریٹائر ھورھی ھے تو ضرورت اس امر کی ھے کہ حکومت کو چاہیے کہ تازہ دم نوجوان میٹالرجیکل انجینئرز اور دیگر شعبہ سے تعلق رکھنے والے انجینئرز کی خدمات حاصل کی جائیں اس کے علاوہ پاکستان اسٹیل میں موجود MTC میٹالرجیکل ٹریننگ سییٹر میں پورے پاکستان سے میرٹ پر میٹرک پاس نوجوانوں کو 6ماہ اور ایک برس کی آرٹیزن شپ کورس کرایا جائے۔

پاکستان اسٹیل پر چڑھے ھوئے تمام قرضوں کو کم از کم 8سے 10برس کے لیے موخر کیا جائے کیونکہ پاکستان اسٹیل جب اپنے اوپر چڑھے ھوئے قرضے اتارنے کے قابل نہیں تو رونے دھونے کی بجائے سنجیدگی، بردباری اور متانت کا تقاضا ھے کہ قرضوں کو موخر کرنا صائب فیصلہ کرنا ھوگا۔ اسکے بعد یا اس سے قبل بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل نوکیا جاناچاہیے بعدازاں نئے CEOکی تقرری کرنا جو فولاد سازی کے شعبہ میں خاطرخواہ تجربہ رکھتے ھوں، پاکستان اسٹیل جب آپریشنل پرافٹ میں رہا پاکستان اسٹیل کے ڈائریکٹر فنانس کی خدمات ہمیشہ وزارت خزانہ کے اعلیٰ افسر کی حاصل کی جاتی تھیں مثلاً محترم حق نواز اختر صاحب اور اس طرح کے دیگر وزارتِ خزانہ کے افسران صاحبان۔

رہا سوال تجربہ کار ریٹائرڈ انجینئرز صاحبان اور دیگر ریٹائرڈ افسران جن کی شہرت ایماندار، دیانت دار، قابل، باصلاحیت اور بڑا تجربہ رکھتے ھیں ان کی خدمات حاصل کرنا ضروری ھے اس کے علاوہ ریٹائرڈ تجربہ کار ٹیکنیکل افرادی قوت کی خدمات حاصل کرنا بھی ضروری ھوگا۔ اس کے بعد حکومت فیصلہ کرنا چاہیے کہ پلانٹ کی ریپئر مینٹینس کے لیے کتنی رقم کی ضرورت ھے پھر کتنی رقم خام مال کی ضرورت کے لئے مختص کرنا ھوگی۔

مذکورہ تصویر میں جو سابق اور ریٹائرڈ افسران شامل ھیں وہ صاحبان واقعی بہترین، باصلاحیت اور انتہائی تجربہ کار پاکستان اسٹیل کے سابق اعلیٰ افسران ھیں۔ اپنی دانست میں مختصر اظہار کرنے کی ادنٰی سی کوشش کی ھے۔ پاکستان اسٹیل قومی ادارہ ھے ملک کاواحد فولاد ساز ادارہ ھے۔ پاکستان اسٹیل ھمارے ملک پاکستان کے پہلے پنج سالہ منصوبے کا حصہ ھے جو صدر ایوب کے زمانے میں منظور ھوا۔

پاکستان اسٹیل کاسنگ بنیاد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 30 دسمبر 1973کو رکھا اور 1981میں پاکستان اسٹیل صدر ضیائ الحق کے دور میں پیداوار دینا شروع کی۔ پاکستان اسٹیل بڑے نشیب وفراز سے گزرنے والا ادارہ ھے۔ الزام تراشی کرناآسان ھے۔ثابت کرنا مشکل ھے۔ لھذا درست سمت پر چلنے کی جلد درست فیصلہ کرنا ضروری ھے۔ افہام وتفہیم کی ضرورت ھے جزبات چھوڑ کر نئے ولولے نئے جوان جذبہ سے آگے بڑھنا ھے اسی میں ھمارے ملک اور قوم کی کامیابی پنہاں ھے۔ پاکستان اسٹیل صرف ایک نسل کے لئے نہیں بنایاگیا تھا بلکہ مستقبل میں آنے والی نسلوں کے لیے بنایا گیا تھا۔۔۔۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں