’انتخابی اصلاحات ایکٹ2017‘ اور آئین کے آرٹیکل 106 میں ترمیم پر مبنی دو بل قومی اسمبلی میں پیش،مزید کارروائی کیلئے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو ریفر کردیا گیا

منگل 11 دسمبر 2018 23:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 دسمبر2018ء) متحدہ مجلس عمل کے ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کی طرف سے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے ’انتخابی اصلاحات ایکٹ2017‘ اور آئین کے آرٹیکل 106 میں ترمیم پر مبنی دو بل منگل ایوان میں پیش ہوئے، جنہیں مزید کارروائی کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو ریفر کردیا گیا۔ پہلا ترمیمی بل انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کے سیکشن 27 ترامیم سے متعلق ہے، جبکہ دوسرا بل آئین کے آرٹیکل 106 میں ترمیم سے متعلق ہے۔

پہلے بل کے مطابق قانون کی اُس شق کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کے مطابق ایسے افراد جن کے ووٹ شناختی کارڈ پر موجود مستقل یا عارضی پتہ کے علاوہ کسی دیگر پتہ پر موجود ہیں، 31دسمبر کے بعد وہ مستقل پتہ پر منتقل ہو جائیں گے۔

(جاری ہے)

ترمیمی بل کے اغراض و مقاصد کے مطابق مذکورہ ترامیم کا مقصد ملک میں لاکھوں، کروڑوں عوام کو اپنے ووٹ کے اپنی مرضی کے مطابق نئے سرے سے اندراج اور اپنے شناختی کارڈ میں ایڈریسز کی تبدیلی کے لیے نئے سرے سے درخواست کے عمل کو غیر ضروری اور تکلیف دہ عمل قرار سے بچانا ہے ۔

جب یہ قانون منظور کیا جارہا تھا اس وقت بھی جماعت اسلامی کے ممبران نے باقاعدہ ترمیم جمع کرا کر اس کی مخالفت کی تھی۔ اس بے کار مشق کا مقصد بزرگوں،عورتوں،نوجوانوں کو نئے سرے سے شناختی کارڈ میں موجود پتہ جات پر ووٹ کا اندراج کرانا ہے حالانکہ اس سے قبل ووٹ بھی ووٹر نے اپنی مرضی سے اندراج کرایا ہو ا ہے ۔یہ قانون پاکستان میں موجود شہریوںکے لیے اور بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ایک بہت بڑی مشکل کا باعث بنے گا ۔

لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اس عوام دشمن اقدام سے بچنے کے لیے ہماری ترمیم منظور کرے۔بل میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ قانون ھذا میں اپنی مرضی کے پتہ پر ووٹ کے اندراج سے متعلق سرکاری ملازمین کو استثنیٰ دیا گیا ہے تاہم اُن کے بچے اس استثنیٰ کو حاصل کرنے کے اہل نہیں ہیں اور انہیں بھی 31 دسمبر 2018ء کے بعد اپنی مرضی سے ووٹر لسٹ میں نام کے اندراج کیلئے نئے سرے سے درخواست دینی پڑے گی۔

لہٰذا یہ ایک بے کار مشق ہے جس سے عام شہری متأثر ہونگے اور لاکھوں لوگ کسی بھی انتخابی عمل میںاپنی مرضی سے حصہ لینے کیلئے حقِ رائے دہی سے محروم رہ جائیں گے۔ متحدہ مجلسِ عمل کے ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ دوسرا بل چترال کے عوام کو صوبائی اسمبلی میں مزید ایک نشست دینے سے متعلق تھا۔ اس حوالے سے مؤقف اختیار کرتے ہوئے بل میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ٴ پاکستان کے دستور کے تحت ریاست تمام ریاستی باشندوں کے حقوق کا محافظ اور تمام آئینی اداروں میں اُن کو جائز اور بھرپور نمائندگی دینے، اُن کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرنے کی پابند ہے۔

چونکہ ضلع چترال (جوکہ پاکستان کا دور دراز دشوار گزار اور پسماندہ علاقہ ہی) کو وہاں کے مخصوص حالات کے پیشِ نظر موجودہ اسمبلیوں میں جائز نمائندگی نہیں دی گئی ہے، اور 447,362 افراد کی مجموعی آبادی اور 14,850 مربع کلومیٹر رقبہ کیساتھ صوبہ خیبرپختونخوا کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے، یہی وجہ ہے کہ طویل دشوار گزار راستوں کے باعث ایک ممبر صوبائی اسمبلی کا دور دراز علاقوں میں جانا ممکن نہیں ہے۔

جبکہ گزشتہ انتخابات (2013ئ) کے موقع پر چترال سے صوبائی اسمبلی کی دو جنرل نشستیں تھیں۔ نیز خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے اب چترال کو باقاعدہ دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوچکا ہے، لہٰذا آئینی و قانونی طور پر بھی الیکشن کمیشن اس بات کا پابند ہے کہ وہ چترال کے دونوں اضلاع کے لیے الگ الگ صوبائی اسمبلی کی نشست کا اعلان کرکے وہاں پر صوبائی اسمبلی کی نئی نشست پر انتخاب کے ذریعے منتخب نمائندہ کو خیبر پختونخوا اسمبلی کا ممبر بننے کا حق دے۔ اس طرح نہ صرف چترال کے عوام بلکہ صوبے بھر کے عوام کو صحیح نمائندگی کا حق حاصل ہو۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں