سپریم کورٹ نے پی کے ایل آئی ہسپتال کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتراضات مسترد کردیئے

تعمیراتی کام کرنے والے ٹھیکہ داروں اور دیگر افراد کے جوابات کا جائزہ لے کر عدالت میں رپورٹ پیش کی جائے، جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں بعض افراد کے خلاف کیس بنتا ہو اور اس ضمن میں شواہد موجود ہیں تو ان کیخلاف کیس درج کرائے جائیں، عدالت کی ڈی جی انٹی کرپشن کو ہدایت

بدھ 16 جنوری 2019 22:13

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 جنوری2019ء) سپریم کورٹ نے پی کے ایل آئی ہسپتال کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتراضات مسترد کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی اور ڈی جی انٹی کرپشن کو ہدایت کی ہے کہ تعمیراتی کام کرنے والے ٹھیکہ داروں اور دیگر افراد کے جوابات کا جائزہ لے کر عدالت میں رپورٹ پیش کی جائے اور اگر جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں بعض افراد کے خلاف کیس بنتا ہو اور اس ضمن میں شواہد موجود ہیں تو ان کیخلاف کیس درج کرائے جائیں۔

بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی کے ایل آئی ہسپتال انتظامیہ کے سروس سٹرکچر سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ایک ٹھیکیدار کے وکیل نعیم بخاری نے پیش ہوکرعدالت کو بتایا کہ ان کا موکل اپنے 1.2 ارب روپے کی رقم واپس لینا چاہتا ہے، جے آٹی ٹی رپورٹ درست نہیں ہے، رپورٹ کے حوالے سے میرے موکل حیران ہیں کہ رپورٹ میں کس بنیاد پر ٹھیکے کو زائد ریٹ کا منصوبہ قرار دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

اس لئے میری استدعا ہے کہ اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے دیا جائے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ عدالت بھی چاہتی ہے کہ یہ منصوبہ بروقت مکمل اورہسپتال جلد فعال ہو۔ چیف جسٹس نے ان سے مزید کہاکہ سننے میں آیاہے کہ ہسپتال میں رواں ماہ جگر کی پہلی پیوند کاری کی جائے گی جبکہ جون کے مہینے سے ادارہ با ضابطہ طورپرفعال ہو گا۔ اینٹی کرپشن کواپنی کارروائی جاری رکھنی چاہیے، دستیاب ریکارڈ کے مطابق اگرکچھ لوگوں کیخلاف مقدمات بنتے ہیں تو درج کئے جائیں، تاہم اگرکسی کو اینٹی کرپشن کی رپورٹ پر اعتراض ہے تو اسے عدالت میں پیش کرکے ٹرائل کا سامنا کریں اور بری ہو جائیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس وقت اس منصوبہ کی تکمیل میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں، ا ب ہمیں بتایا جائے کیا آپ نے اینٹی کرپشن کی رپورٹ پر ا پنا جواب جمع کرادیا ہے۔ جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ ہم نے اپنا جواب جمع کرادیا ہے۔ سماعت کے دوران شیر دل مجاہدکے وکیل اعتزاز احسن نے بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ بورڈ کے چیئرمین اقبال حمید الرحمان کو بھیجی جائے جوغلط معلومات کی بنیاد پرتیارکی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ اگر بے قاعدگیاں ہوئی ہیں اور جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں کیس بنتے ہیں تواینٹی کرپشن بے شک کیس درج کرلے تاہم رپورٹ کی تیاری کا تعین عدالت نے ہی کرنا ہے۔ سماعت کے دوران نعیم بخاری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اگر پرچے درج کرائے گئے تو اس سے ہسپتال کا تعمیرتی کام رک جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کام کوئی نہیں رکے گا ، اعتزاز صاحب، میں خود پی کے ایل آئی ہسپتال گیا ہوں، وہاں کام کا معیار ہرگز تسلی بخش نہیں، کوئی کام سٹیٹ آف دی آرٹ نہیں ہوا جس کے نعرے لگائے گئے، اس معیارکا کا م 22 ارب خرچ کرنے کے باوجو د نہیں ہوا اور یہ کوئی کم رقم نہیں، آپ خود دیکھ لیں کہ بہت کوششیں کرنے کے بعد ڈیم فنڈ کے لئے مخص 9 ارب جمع ہوسکے ہیں۔

نقشہ نویس کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے پیش ہوکر کہا کہ منصوبے کے آرکیٹکٹ پر الزام لگا یا گیا ہے کہ یہ ہسپتال ایک ہزار بستروں کا ہسپتال تھا جس کوکم کرکے 400 بیڈ کا بنایاجا رہا ہے لیکن ہسپتال ہم نے نہیں بلکہ حکومت نے بنانا ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اینٹی کرپشن محکمہ کی جانب سے جمع کردہ جے آئی ٹی رپورٹ ابتدائی رپورٹ ہے، ابھی تواس معاملے کی تفتیش اورپھر ٹرائل ہونا ہے۔

سماعت کے دوران اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ڈائریکٹر حسین اصغر عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیاکہ اس معاملے میں اینٹی کرپیشن کیا کارروائی کرے گی۔ حسین اصغر نے بتایا کہ جن لوگوں کے نام اس معاملے میںآئے ہیں ہم ان کا موقف سنیں گے، اس کے بعد ہی کوئی قدم اٹھایا جائے گا۔ اس پرچیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کو اپنے افسروں پر پورا اعتماد ہے، پاکپتن کیس میںبھی اینٹی کرپشن نے بہترین رپورٹ دیدی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کرتے ہوئے ڈی جی اینٹی کرپشن کو ہدایت کی کہ جے ی ٹی رپورٹ کی روشنی میں ٹھیکیداروں اور دیگر حکام کے جوابات کا جائزہ لے کر دو ہفتوں میں عدالت کو رپورٹ پیش کی جائے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں