پاکستان اور نیپال کی تاریخ، ثقافت اور تہذیب صدیوں کی ہم سفری اور محبت کی امین ہے،

پارلیمانی سیکرٹری غزالہ سیفی اور وفاقی سیکرٹری انجنیئر عامر حسن کا’’عصری پاکستانی اور نیپالی ادب‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب

جمعہ 18 جنوری 2019 23:28

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 جنوری2019ء) پاکستان اور نیپال کی تاریخ، ثقافت اور تہذیب صدیوں کی ہم سفری اور محبت کی امین ہے۔ ان خیالات کا اظہار پارلیمانی سیکرٹری، قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن غزالہ سیفی نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام نیپال سے آئے ہوئے اہل قلم کے وفد کی آمد کے موقع پر’’عصری پاکستانی اور نیپالی ادب‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وہ اس سیمینار کی صدارت کر رہی تھیں۔ مہمان خصوصی انجنیئر وفاقی سیکرٹری، قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن عامر حسن تھے۔ ، چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان سید جنید اخلاق نے وفد اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ حفیظ خان نے عصری پاکستانی ادب اور نیپال اکیڈمی کے چانسلر گنگا پراساد اٴْپریتی نے عصری نیپالی ادب کے موضوع پر مقالات پڑھے۔

(جاری ہے)

نظامت محبوب ظفر نے کی۔

غرالہ سیفی، پالیمانی سیکرٹری، قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن نے کہاکہ لکھاری چاہے کسی بھی خطہ کے ہوں ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ متحد ہو کر ہم قدمی اور ہم دلی کے ساتھ مکالمے کی روایت کو آگے بڑھائیں۔ امن، استحکام، آزادی اور خطہ کی بقائے باہمی کیلئے ماحول کو سازگار اور خوشگوار بنانے میں اہلِ قلم کا کردار انتہائی مثبت اور قابلِ تقلید ہوتا ہے، ہماری حکومت جنوبی ایشیا اور دنیا کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے اہلِ فکر و دانش سے روشنی حاصل کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیپال اور پاکستان دونوں دوست ممالک خطہ میں جغرافیائی اور تاریخی حوالہ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ مختلف ممالک کے ادیبوں اور لکھاریوں کے درمیان مکالمے، اکتساب اور استفادے کی فضاء قائم کرنے سے ہم خطہ کی مجموعی صورتِ حال کو ترقی کے لیے سازگار بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، ہم نے اہلِ قلم کی خدمات کو ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کیا اور عظیم تہذیبی روایات کی بقاء اور احیاء کیلئے ان کی جدوجہد کی قدر کی ہے۔

وفاقی سیکرٹری، قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن انجنیئر عامر حسن نے کہا کہ ہمارے دوست ملک نیپال کا شمار جنوبی ایشیا کہ اہم ممالک میں ہوتا ہے، ہماری قربتیں جغرافیائی اور ثقافتی سطح پر لا زوال اور بے مثال ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے نیپالی اکیڈمی کے ساتھ ادبی مفاہمت کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ادیب اور شاعر اپنی تحریروں کے ذریعے علاقائی مسائل اور معاملات کو موضوع بناتے رہیں گے اور قوموں کی رہنمائی میں اپنا اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔

اکادمی ادبیات پاکستان نے اپنی متعدد کانفرنسوں کے ذریعے فروغِ امن میں ادیبوں کے کردار اور قومی یگانگت جیسے اہم موضوعات پر ادیبوں کو مکالمے کا موقع دیا۔ ادیب اور لکھاری چاہے کسی بھی علاقے، زبان اور طبقے سے تعلق رکھتے ہوں ان کی تحریروں سے محبت، یکجہتی، امن پسندی اور مساوات کی تعلیمات ملتی ہیں۔ چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان سید جنید اخلاق نے کہا کہ نیپال اکادمی کے ممنون ہیں جس نے پاکستانی خواتین لکھاریوں کے حوالے سے ہماری کتاب کا نیپالی زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا۔

اکامی ادبیات پاکستان بھی نیپالی ادب کے تراجم کو اپنے دارالترجمہ کے زیر انتظام شائع کرے گی۔ نیپال اکادمی سے ادبی تعاون جاری رہے گا۔ نیپال اکیڈمی کے چانسلر گنگا پراساد اٴْپریتی نے ’’عصری نیپالی ادب‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیپالی ادب کی تاریخ پچھلے تین سو سالوں پر محیط ہے۔ نیپالی ادب کے تحریری متن کا ذریعہ لوک ادب، زبانی روایت اور قدیم سنسکرت کے اساتذہ جیسے رامایہ اور مہابھٹا سے حاصل کردہ مذہبی کہانیوں سے ملتاہے۔

نیپالی زبان جدید آریائی زبانوں میں سے ایک ہے جس کی ابتدا قرون وسطیٰ پراکر اور سنسکرت زبان سے ہے۔ اس زبان کی تحریری روایت کی تاریخ تقریباً ایک ہزار سال پرانی ہے، جب سنسکرت زبان وسیع پیمانے پر استعمال کی زبان کے طور پر محروم ہو گئی تو نیپال میں رہنے والے سنسکرت کے علماء نے نیپالی زبان میں لکھنا شروع کردیا، اس کے نتیجہ میں نیپالی زبان زیادہ معیاری بن گئی اور نیپالی زبان معاشرے میں عام استعمال کی زبان بن گئی۔

انہوں نے کہا کہ نیپالی زبان میں ادبی تحریر جدید نیپال کے متحد عمل کے دور میں شروع ہوئی۔ نیپالی لکھنے والوں کی نئی نسلوں کے مصنفین نے ادب کی نئی مختلف اصناف اور تکنیکوں کو اپنایا۔ اس طرح، نیپالی ادب پہلے مرحلے میں سماجی حقیقت اور انسانی نوعیت کے نقطہ نظر پر مبنی ادب تخلیق کیا گیا، اس مرحلہ کا ادب آزادی اور جمہوریت کی آواز بن گیا، 1951ء کو جدید نیپالی ادب کے نقطہ نظر سے سمجھا جاتا ہے،بعد ازاں جدید مرحلے کے مشہور مصنفین نے ادب کی مختلف اصناف کے ذریعے اپنی تحریر کو آگے بڑھایا۔

حفیظ خان نے ’’عصری پاکستانی ادب‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہپاکستان میں تقریباً72زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن لکھی اٴْن میں سے کم و بیش اٹھارہ ہیں، جن میں ادب تسلسل سے تخلیق ہورہا ہے۔ قومی زبان اٴْردو سمیت تقریباً آٹھ یعنی سرائیکی ، پنجابی، سندھی، بلوچی، براہوی، پشتو اور ہندکو ہیں۔پاکستان میں ادب انگریزی میں بھی اعلیٰ پائے کا تخلیق ہورہا ہے پاکستان کے عصری ادب کااپنی امکانی صورت میں منصہ شہود پر آناگذشتہ ایک عشرے سئے عملِ جاری رہا ہے لیکن ہمارا آج کا ادب خواص کیلئے نہیں، دنیا بھر کے انسانوں سے روابط کا رمز آشنا ہے۔

اِس کے تشکیلی عناصر میں مقصدیت، انسان دوستی ، حب الوطنی، آزادی کا بنیادی حق، معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات یعنی عورت، مزدور اور کسان کے مفادات کا تحفظ، انسانوں کے باہمی تعامل میں کھردری حقیقتوں کا واشگاف اظہار اور سماجی ضابطوں کو توڑنے کی خواہش سبھی کچھ موجود ہے۔یہی وہ عناصر ہیں کہ جن سے جمود کی قوتیں لرزاں رہتی ہیں۔ سمینار میں اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے مغزز مہمانوں کو کتابوں کے تحفے پیش کئے گئے۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں