فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ، نظرِ ثانی درخواستوں کی تعداد 8 ہوگئی

کچھ درخواستیں اس سے قبل بھی دائر کی گئیں تھیں جن پر اعتراض لگا کر واپس کردیا گیا تھا

جمعرات 18 اپریل 2019 21:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 اپریل2019ء) نومبر 2017 میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنان اور ہمدردوں کی جانب سے فیض آباد کے مقام پر دیے گئے دھرنے کے خلاف سپریم کورٹ کے 6 فروری کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی متعدد درخواستیں دائر ہوگئیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب تک مختلف اداروں اور افراد کی جانب سے دائر اور دوبارہ دائر ہونے والی 8 درخواستوں کی تعداد 8 تک پہنچ گئی ہے۔

درخواست گزاروں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، وزارت دفاع، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی)، پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، وزیر ریلوے شیخ رشید،اور سیاستدان اعجاز الحق شامل ہیں۔اس میں سے کچھ درخواستیں اس سے قبل بھی دائر کی گئیں تھیں جن پر اعتراض لگا کر واپس کردیا گیا تھا یا واپس لے لیا گیا تھا اور اب وہ دوبارہ سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں ہیں۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سخت الفاظ پر مشتمل فیصلے میں وزارت دفاع، فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان کو حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ماتحت افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی۔اسی طرح وفاقی حکومت کو نفرت انگیز، شدت پسند اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کرنے اور ان کے خلاف قانون کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ 20 روزہ دھرنے سے جڑواں شہروں کے معمولات زندگی مفلوج ہونے اور عوام کو مشکلات پیش آنے پر مختلف سرکاری اداروں کی بھی سرزنش کی گئی تھی۔جس کے ردِ عمل میں وزارت دفاع نے عدالت عظمیٰ سے مسلح افواج اور انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بارے میں واضح اور ضمنی طور پر دیے گئے مشاہدے کو حذف کرنے کی گزارش کی تھی۔اٹارنی جنرل انور منصور کی جانب سے دائر درخواست میں وزارت دفاع نے موقف اختیار کیا کہ ’مسلح افواج ساز و سامان کی کمی، حکمتِ عملی کی ناکامی یا اس میں تبدیلی سہہ سکتی ہیں کیوں کہ نقصانات کا ازالہ ممکن ہے اور معرکہ ہارنے کے بعد بھی جنگ جیتی جاسکتی ہے لیکن جو چیز مسلح افواج نہیں سہہ سکتیں وہ مورال ختم ہونا ہے‘۔

درخواست میں کہا گیا کہ ’ ایک فوجی کا مورال خراب کرنے میں کوئی چیز بھی اس بات سے زیادہ اثر نہیں کرسکتی کہ اسے بتایا جائے کہ اس کے افسران ان ’معاملات‘ میں ملوث ہیں ’جس سے ان کا تعلق نہیں ہونا چاہیے‘ اور انتہا پسندوں کو نقد رقم دے رہے تھے یا ان کی حوصلہ افزائی کررہے تھے جو گالی، نفرت اور تشدد کا سہارا لے رہے تھے، مختصر یہ کہ وہ عہدے کے حلف کی خلاف ورزی کررہے تھے اور قومی مفاد کے خلاف کام کررہے تھے‘۔

درخواست کے مطابق عدالت کے سامنے ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا جس سے یہ کہا جاسکے کہ آئی ایس آئی کسی بھی طرح دھرنے یا 2018 کے انتخابات کے مخصوص نتائج یا اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے یا پریس کو ڈرانے یا اس کی سینسر شپ میں ملوث تھی۔درخواست میں کہا گیا کہ متعدد غیر ملکی خفیہ اداروں نے اپنے مذموم عزائم کو بڑھاتے ہوئے پاکستان اور مسلح افواج کے خلاف یہ غلط تاثر پیدا کیا کہ وہ خطے میں شدت پسند تنظیموں کو مدد یا ان کی حمایت کررہی ہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے دائرہ کار کو واضح طور پر استعمال کیا جانا چاہیے لیکن مذکورہ صورتحال میں اس کے اصل دائرہ کار کی مشق پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا۔دوسری جانب انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی جانب سے دائر درخواست میں بھی عدالت سے محکمے کے خلاف منفی مشاہدات کو نکالنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ایک اہم سویلین خفیہ ایجنسی ہے جو ریاست کی سلامتی کی ذمہ دار ہے، درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ اس حکم سے عوام پر یہ ’برا تاثر‘ پڑا کہ آئی بی آئین کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے غیر قانونی سرگرمیوں اور سیاست میں شامل تھی۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ فیصلے میں کیے گئے مشاہدات ’غلط حقائق‘ پر مبنی تھے اور دھرنے کے دوران محکمہ وفاقی اور پنجاب حکومت کے ساتھ رابطے میں تھا اور انہیں ٹی ایل پی کی جانب سے اسلام آباد کا لاک ڈاؤن کرنے کی کوشش کے منصوبے سے آگاہ بھی کیا تھا۔اپنی درخواست میں الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ اس نے آئین پر مکمل عملدرآمد اور قانون، ضابطہ کار کو نافذ کرتے ہوئے ٹی ایل پی کو 16 اگست 2017 کو مراسلہ جاری کیا تھا جس میں اس سے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات دینے کا کہا گیا تھا اور پارٹی کو ایک نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا جس میں اس کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی نے اپنے سیکریٹری جنرل ارشد ڈار کے ذریعے دائر درخواست میں 2014 پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے ذکر پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ اس سے غلط طور پر یہ تاثر ابھرا کہ پارٹی نے شہرت کے لیے غیر قانونی احتجاج کیا اور جان بوجھ کر غلط الزامات لگائے۔نظرِ ثانی درخواست اسلیے دائر کی گئی کہ متعلقہ ریمارکس کو حذف کیا جائے کیوں کہ 2014 کو دھرنا حقیقی وجوہات کی بنا پر دیا گیا جو عوام کے بنیادی حقوق سے مطابقت رکھتا تھا اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تھا۔درخواست میں کہا گیا کہ پارٹی کا فیض آباد دھرنے سے کوئی تعلق نہی اس لیے اس سے متعلق ریمارکس حذف ہونے چاہیے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں