بلوچستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرین میں 204 ملین روپے کی امداد تقسیم کی گئی ہے، علی محمد خان

حکومت آفات سے نمٹنے کے اداروں کے درمیان رابطہ کاری کو فروغ دے رہی ہے، وزیر مملکت کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے مرکز میں این ڈی ایم اے ‘ صوبہ میں پی ڈی ایم اے اور اضلاع کی سطح پر ضلعی نظام موجود ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان دبئی کے راستے بلواسطہ تجارت بھی ہو رہی ہے جس سے پاکستان کو زیادہ فائدہ نہیں ہو رہا، شاندانہ گلزار کھجور کی درآمدات پر پابندی نہیں لگا سکتے،کھجور کے کاشتکاروں کو نقصان ہو رہا ہے ، اس میں ہم کچھ نہیں کرسکتے، پارلیمانی سیکرٹری

بدھ 24 اپریل 2019 17:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 اپریل2019ء) وزیر مملکت علی محمد خان نے قومی اسمبلی کوبتایا ہے کہ بلوچستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرین میں 204 ملین روپے کی امداد تقسیم کی گئی ہے، حکومت آفات سے نمٹنے کے اداروں کے درمیان رابطہ کاری کو فروغ دے رہی ہے۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں محمد ہاشم توتیزئی نے توجہ مبذول پر بتایا کہ حالیہ سیلاب سے بلوچستان کے 25 اضلاع میں متعدد افراد جاں بحق‘ زخمی اور ہزاروں متاثر ہوئے ہیں ،فصلوں کو بھی نقصان ہوا ہے۔

وزیراعظم آفس کے انچارج وزیر اس کا نوٹس لیں،پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے بتایا کہ بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں میں پہلے قحط ہوئی پھر سیلاب آیا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ موسمیات کی طرف سے الرٹ کی اطلاع پر متعلقہ اداروں کو بروقت آگاہ کیا گیا۔

(جاری ہے)

انہوںنے بتایا کہ 204.053 ملین روپے کی امداد بلوچستان میں این ڈی ایم اے کو فراہم کی گئی ہے۔

حالیہ بارشوں میں این ڈی ایم اے امداد کی کال صرف بلوچستان سے آئی تھی۔ دس ہزار راشن بیگ تقسیم کئے گئے ہیں جن میں تمام ضروری اشیاء شامل ہیں۔ 16 ہزار 500 خیمے‘ کمبل‘ سلیپنگ بیگز اور جنریٹرز کی فراہمی بھی کی ہے۔ صوبائی محکمہ ہنگامی امداد بھی فعال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان صدر میں حالیہ تقریب میں بین الاقوامی ڈونرز کو بھی بلایا گیا۔ ہمارا 96.3 ملین ڈالر کا ہدف ہے۔

انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے اور متعلقہ اداروں کو رسپانس کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ محمد ہاشم نوتیزئی نے کے سوال کے جواب میں علی محمد خان نے کہا کہ امداد زیادہ ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب سے بلوچستان میں مجموعی طور پر 15 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ حکومت مالی امداد فراہم کر رہی ہے۔ صوبائی حکومت کے لئے بھی فروری سے مارچ تک کے نقصانات کی مد میں 280.07 ملین روپے رکھے ہیں۔

حکومت آفات سے نمٹنے کے اداروں کے درمیان رابطہ کاری کو فروغ دے رہی ہے۔ آغا حسن بلوچ نے کہا کہ حالیہ سیلاب اور بارشوں سے نقصانات ہوئے ہیں لیکن صوبائی حکومت کی طرف سے مناسب امداد فراہم نہیں کی گئی ہے۔ کوئٹہ اور گردونواح میں نقصانات ہوئے جس پر این ڈی ایم اے کو آگاہ کیا گیا ہے لیکن مناسب ردعمل سامنے نہیں آیا۔ علی محمد خان نے کہا کہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے مرکز میں این ڈی ایم اے ‘ صوبہ میں پی ڈی ایم اے اور اضلاع کی سطح پر ضلعی نظام موجود ہے۔

اجلاس کے دور ان پیپلزپارٹی کی نفیسہ شاہ‘ شگفتہ جمانی اور دیگر کے توجہ مبذول نوٹس پر پارلیمانی سیکرٹری شاندانہ گلزار نے کہا کہ پاکستان کی 97 فیصد کھجور بھارت کو برآمد ہو رہی ہے‘ پلوامہ حملہ کے بعد بھارت نے 200 فیصد ڈیوٹی عائد کی‘ بھارت کے ساتھ تجارت میں کمی آئی ہے۔ انہوںنے کہاکہ بلوچستان اور سندھ میں تازہ کھجور کی پراسیسنگ سہولت نہیں ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی سطح پر اختیارات منتقل ہوئے لیکن اب تک پراسیسنگ کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔

بھارتی امپورٹر نے درآمد بند کی ہے۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ کھجور برآمد کرنے کے حوالے سے پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔ اگر بھارت کی طرف سے پابندی لگی ہے تو متبادل کیا اقدامات کئے گئے ہیں، اگر صورتحال کا ازالہ نہ کیا گیا تو کم سے کم آٹھ ارب کا نقصان ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں سعودی عرب اور ایران سے کھجور کی درآمد کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے کیا جوابی اقدامات کئے گئے ہیں۔ شاندانہ گلزار نے کہا کہ پچھلے 11 سالوں میں تازہ کھجوروں کے لئے پراسیسنگ سہولت کیوں فراہم نہیں کی گئی۔ ہم نے مراکش‘ فرانس‘ انڈونیشیا سمیت چھ ممالک میں بات کی ہے، ہم جوابی اقدامات تب رتے اگر ہماری استعداد ہوتی۔ میں الزامات نہیں لگاتی لیکن پاکستان میں صنعتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

یہ مسئلہ موجود ہے اور ہم اس کو حل کر رہے ہیں۔ جولائی 2018ء میں ڈیوٹی ڈرا بیک کی سہولت ہم نے فراہم کی ہے۔ ٹڈاپ سے بھی ہم نے بات کی ہے۔ حکومت تجارت کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹریٹجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک میں کھجوروں کی پراسیسنگ پلانٹس میں امداد شامل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیرف لسٹ میں جتنی آئٹمز ہیں حکومت تمام شعبوں کو دیکھے گی۔

ہمیں ڈبلیو ٹی او کے قوانین کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دبئی کے راستے بلواسطہ تجارت بھی ہو رہی ہے جس سے پاکستان کو زیادہ فائدہ نہیں ہو رہا۔ شاندانہ گلزار نے کہا کہ مصنوعات کی سٹاکنگ وفاقی حکومت ایک حد تک کر سکتی ہے۔ صوبائی حکومتوں کا کردار زیادہ ہوتا ہے۔ سپیکر نے زراعت سے متعلق مسائل کے حل کے لئے کمیٹی بھی بنائی ہے۔

اس کمیٹی میں صوبوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جاوید علی شاہ جیلانی کے سوال پر شاندانہ گلزار نے کہا کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس ملا تھا۔ پاکستان نے تمام ضوابط پورے کئے۔ جنوری 2014ء سے ہمیں اجازت دی تھی لیکن ہم پچاس کے قریب ٹیرف لائن سے فائدہ نہیں اٹھا سکے کیونکہ سپلائی کی سطح پر ہم کام نہیں کر سکے۔انہوںنے کہاکہ ایشو یہ ہے کہ صوبے مرکز سے اس حوالے سے بات نہیں کر رہے۔

شاہدہ رحمانی کے سوال پر پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ پاکستان مارکیٹ اکانومی ہے،حکومت تمام سٹیک ہولڈرز کے مفادات کو دیکھتی ہے جن میں کسان‘ تاجر‘ امپورٹرز سب شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کھجور کی درآمدات پر پابندی نہیں لگا سکتے،کھجور کے کاشتکاروں کو نقصان ہو رہا ہے لیکن اس میں ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ انہوںنے کہاکہ ماضی میں زراعت سے متعلق صنعتوں پر توجہ نہیں دی گئی ہے، موجودہ حکومت اس شعبہ کی صنعتوں پر توجہ دے رہی ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں