قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ 2019-20ء پر عام بحث مکمل ہوگئی

منگل 25 جون 2019 22:50

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جون2019ء) قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ 2019-20ء پر عام بحث مکمل ہوگئی۔ منگل کو بحث کے آخری روز اراکین کی جانب سے بجٹ پر ملا جلا رجحان دیکھنے کو ملا‘ حکومتی ارکان کی جانب سے بجٹ کو متوازن اور عوام دوست جبکہ اپوزیشن کی جانب سے اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ منگل کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2019-20ء کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکن چوہدری محمد اشرف نے کہا کہ پاکستان قائم رہے گا تو ہم رہیں گے‘ آئین کی خلاف ورزی روکنا ہم سب کا فرق ہے۔

زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے اس سے ہم کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ رکن قومی اسمبلی محمد اسلم نے کہا کہ پہلی مرتبہ بولنے کا موقع ملا۔ کراچی سے منتخب ہوا۔

(جاری ہے)

موجودہ حالات میں پیش کیا گیا بجٹ عوام دوست ہے۔ حکومت کے اقدامات کی بدولت حالات جلد بہتر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے ملک کا جو حال کیا سب کے سامنے ہے۔ آج عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت سے انہیں تکلیف اس لئے ہوئی کہ ان کی عیاشیاں ختم ہوگئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے معاملے پر اتنا کہوں گا کہ بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا کیس دوبارہ کھولا جائے‘ ان کے دور میں لیڈر کو مار دیا گیا لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی مہر ارشاد احمد خان نے کہا کہ ٹیکس لگانے کے فیصلوں پر نظرثانی کی جائے ، اس بجٹ سے تمام طبقات متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرائیکی عوام سے الگ صوبہ دینے کا وعدہ پورا کریں۔

اس معاملے پر پوری اپوزیشن حمایت کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن ۔ رکن قومی اسمبلی عطاء اللہ خان نے کہا کہ بدعنوانی کے الزامات میں جیل جانے والے آج آہ و زاری کر رہے ہیں۔ یہ ان کے اپنے کئے کا نتیجہ ہے‘ انہیں سوچنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں کیا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اپنا کاروبار بڑھانے اور لوٹ مار میں مصروف رہے۔ ان کی عوام سے ہمدردی کا ثبوت یہ ہے کہ تھر میں قحط اور بھوک ہے۔

اس سال 250 ‘ 2018ء میں 550 ‘ 2017ء میں 480 ‘ 2016ء میں 440 بچے جاں بحق ہوئے۔ لاڑکانہ میں موذی امراض پھیل رہے ہیں یہ ان کی کارکردگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں پانی ماضی کے کنٹرول میں ہے۔ پانی کے معاملہ پر خصوصی کمیٹی بنائی جائے پھر تحقیقات کرے کہ پانی سے کمایا گیا پیسہ کہاں جاتا ہے۔ رکن قومی اسمبلی میر خان محمد جمالی نے بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ سڑکوں کی تعمیر کے لئے فنڈز مختص کرنے پر حکومت کے مشکور ہیں تاہم دیگر صوبوں کی طرح موٹرویز بنائی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں زراعت کی ترقی کے لئے پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ صرف سیاستدان ہی ایک دوسرے کی تضحیک کرتے ہیں۔ یہ ہمیں زیب نہیں دیتا۔ پوری قوم ہمیں دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مہذب طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔رکن قومی اسمبلی ذوالفقار بچانی نے اپنے حلقہ میں درپیش پانی‘ بجلی ور گیس کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے حکومت سے ان کے حل کا مطالبہ کیا۔

رکن قومی اسمبلی محمد اکرم چیمہ نے کہا کہ ان حالات میں بہترین بجٹ پیش کرنے پر حکومت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آئندہ مالی سال کے لئے کراچی شہر میں 34 ارب کی وفاقی ترقیاتی سکیمیں رکھی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی ملک کو بڑا ریونیو دیتا ہے لیکن تعلیم‘ صحت‘ صفائی اور دیگر بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ روٹی کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ لگانے والی پارٹی میرے شہر کا پانی بیچ رہی ہے۔

پانی کی فروخت سب سے منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو آفت زدہ قرار دے کر شہر کے لئے فنڈز جاری کئے جائیں تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی سید افتخار الحسن نے کہا کہ بڑے بڑے دعوے کئے جارہے ہیں لیکن اس ملک کے حق میں اور اس کے قیام کے لئے قربانیاں دینے والوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں عوام کے لئے ریلیف نہیں دیا گیا لیکن لوگوں کے لئے اچھا کام کریں گے تو ہم ساتھ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حضورﷺ سے عقیدت اور احترام پر کوئی سوال نہیں وہ مدینہ میں ننگے پائوں جاتے ہیں‘ ہر مسلمان کو وہاں ننگے پائوں ہی جانا چاہیے۔ رکن قومی اسمبلی مولانا عصمت اللہ نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ میں کوئٹہ سے منتخب ہو کر آیا ہوں۔ میرے حلقہ کے عوام کو بجلی‘ گیس اور سڑکوں کی کمی کا سامنا ہے۔ ہمارا علاقہ کوئٹہ کا پسماندہ علاقہ ہے۔

سینٹ نے بھی اپنی سفارشات میں کوئٹہ کے گردونواح میں بجلی کی عدم دستیابی کی سفارش کی ہے۔ ہمیں عوام نے منتخب کرکے ایوان میں بھیجا ہے مگر ہمیں اہمیت نہیں دی جاتی۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ ہمارے لئے تمام ارکان قابل احترام ہیں۔ ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ نے کہا کہ کراچی بھی ایک پسماندہ علاقہ ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس شہر کے مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں دی۔

اس لئے ضروری ہے کہ وفاق کو یہ معاملہ خود اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جاگیرداروں اور وڈیروں کو بھی ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے جہانگیر ترین کا کردار قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے لئے مختص فنڈز پر نظرثانی کرتے ہوئے ان میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عرفان علی لغاری نے کہا کہ اس بجٹ کو عوام دوست بجٹ نہیں کہا جاسکتا۔

گیس اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے روکی جائیں۔ کسان کی سہولت کے لئے کھاد میں سبسڈی دی جائے جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کے ساتھ ٹیکس کی حد بڑھا کر 12 لاکھ کی جائے۔ پی ٹی آئی کے رکن ساجد خان نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں فاٹا کو اتنے فنڈز پہلے کبھی نہیں ملے جتنے موجودہ حکومت نے فراہم کئے ہیں۔ طورخم بارڈر کی طرح مہمند بارڈر کو بھی کھولا جائے تاکہ قبائلی اضلاع میں کاروبار فروغ پاسکے۔

انہوں نے کہاکہ بھرتیوں کے لئے ڈومیسائل کی بجائے شناختی کارڈ کی شرط رکھی جائے جس سے بیروزگاری کا مسئلہ حل ہوگا۔ مہمند کے آئی ڈی پیز کو بھی وہی درجہ دیا جائے جو فاٹا کے دیگر آئی ڈی پیز کو حاصل ہے۔ تحریک انصاف کے رکن سردار ریاض محمود مزاری نے کہا کہ بجٹ اچھا ہوا تو عوام تعریف کریں گے ورنہ ہم مل کر تنقید برداشت کریں گے۔ بجٹ پر ایوان میں بہت کم مثبت تقاریر ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ امن اور پانی کی فراہمی کے وعدوں پر ووٹ لے کر آئے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد افضل ڈھانڈلہ نے کہا کہ پسماندہ علاقوں سے منتخب ہوکر عوامی نمائندوں کو ایوان میں بولنے کا موقع ملنا چاہیے۔ پاکستان زرعی ملک ہے تاہم زراعت پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی دی جانی چاہیے تھی۔

زراعت کو ترقی دے کر ملک ترقی کر سکتا ہے اور پوری دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ مہنگائی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ روزمرہ کی اشیاء سستی ہونی چاہیے۔ ایم ایم روڈ اور گریٹر تھل کینال کے لئے فنڈز مختص کرنے پر شکرگزار ہیں۔ پہلی بار پسماندہ علاقہ کے لئے پیسے رکھے گئے۔ تھل یونیورسٹی کے لئے صوبہ نے پیسے رکھے۔ جھنگ بھکر روڈ کو دو رویہ بنایا جائے۔

بھکر میں میڈیکل کالج ضرور قائم ہونا چاہیے ۔جنوبی پنجاب صوبہ بنایا جائے اور بھکر کو اس میں شامل کیا جائے۔ مسلم لیگ (ق) کی رکن فرح خان نے کہا کہ پاکستان کی بقاء ہی ہماری آنے والی نسلوں کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ معیشت کو بہتر بنانے میں مدد کریں۔ بجٹ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں غریبوں کا احساس ہے اور اس کے لئے احساس پروگرام دیا گیا ہے۔

رکن قومی اسمبلی شکور شاہ نے کہا کہ ملک میں دو جماعتی نظام کے خاتمہ کے بعد موجودہ حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش کرنا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندے ووٹ لے کر آئے ہیں جو قابل احترام ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے پر تنقید کی بجائے ملک کے لئے مل کر کام کرنا چاہیے۔ رکن اسمبلی عابد حسین بھٹو نے کہا کہ بجٹ کے حوالے سے عوامی نمائندوں کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز پر غور کیا جائے۔

تحریک انصاف کو عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ تحریک انصاف کے رکن احسان الحق ٹوانہ نے کہا کہ تحریک انصاف کی اقتصادی ٹیم نے موجودہ مشکلات میں ایک متوازن بجٹ پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبہ کی جانب سے ٹیکس نہ دینے کا تاثر درست نہیں۔ یہ صوبائی معاملہ ہے اور صوبوں میں ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ رکن قومی اسمبلی ملک کرامت علی کھوکھر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ملک اپنے پائوں پر کھڑا ہوگا۔

ایک نیا پاکستان بنے گا اور عالمی سطح پر اس کا وقار بلند ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کسان ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی خوشحالی پر توجہ دی جائے۔ کھاد اور بیج پر سبسڈی دی جائے تاکہ ملک اس شعبہ میں خودکفیل ہو سکے۔ پیپلز پارٹی کے رکن نذیر ڈھیرو نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اقلیتوں کے لئے قانون سازی کی۔ اس ایوان میں نمائندگی بھی اس کا کارنامہ ہے۔

پارلیمانی سیکرٹری شاندانہ گلزار نے کہا کہ یہ بجٹ پاکستان کی بقاء‘ سالمیت کے تحفظ کے لئے ہے۔ تجارتی خسارہ امپورٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ درآمدات بڑھنے اور برآمدات کم ہونے سے مسائل ہوتے ہیں۔ گزشتہ حکومتیں بتائیں انہوں نے نوجوانوں کے روزگار کے لئے کیا کیا۔ عمران خان نے سٹیل ملز کے ملازمین کی بیوائوں کو پنشن دلائی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ غلطیاں تسلیم نہیں کرتے ان کے خلاف تقریریں جاری رہیں گی۔

ہمیں اپنے وزیراعظم پر پورا بھروسہ ہے۔ تحریک انصاف کے رکن سردار ذوالفقار دلہا نے کہا کہ کاروبار ہوگا تو ٹیکس ملیں گے۔ برآمدات بڑھانے کے لئے کوریا کی طرز اوورسیز ٹریڈ اتھارٹی قائم کی جائے۔ اس میں اوورسیز پاکستانیوں کو شامل کیا جائے۔ ہمارے کمرشل اتاشیوں کی کارکردگی صفر ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لئے بجٹ میں کچھ نہیں۔ پنجاب اوورسیز کمیشن کو فعال کیا جائے۔ تنخواہ دار طبقہ پر انکم ٹیکس کی حد نو لاکھ روپے کی جائے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں