معیشت کے بڑے شعبوں میں اصلاح اور طلب پر قابو پانے کی حکومتی پالیسیوں کے مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں ‘

پالیسیوں کے مثبت اثرات کا نتیجہ نہ صرف مالی سال2019ء میں3.3 فیصد کی مناسب معاشی نمو کی صورت میں نکلا ہے بلکہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے مثبت اثرات افراط زر پر قابو پانے، معاشی ترقی کی رفتار کو تیز تر کرنے، سماجی تحفظ کے دائرہ کار کو مضبوط بنانے، ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے اور مالیاتی و تجارتی خسارے میں واضح کمی لانے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں‘ترجمان فنانس ڈویژن

پیر 21 اکتوبر 2019 23:38

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 اکتوبر2019ء) ترجمان فنانس ڈویژن نے کہا ہے کہ معیشت کے بڑے شعبوں میں اصلاح اور طلب پر قابو پانے کی حکومتی پالیسیوں کے مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں جس کا نتیجہ نہ صرف مالی سال2019ء میں3.3 فیصد کی مناسب معاشی نمو کی صورت میں نکلا ہے بلکہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے مثبت اثرات افراط زر پر قابو پانے، معاشی ترقی کی رفتار کو تیز تر کرنے، سماجی تحفظ کے دائرہ کار کو مضبوط بنانے، ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے اور مالیاتی و تجارتی خسارے میں واضح کمی لانے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

پیر کے روز جاری کردہ ایک اعلامیے میں فناس ڈویژن کے ترجمان نے کہا کہ حکومت نے معیشت کی بحالی کے لیے اب تک جتنی کوششیں کی ہیں انہیں اس مشکل معاشی صورت حال کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جو موجودہ حکومت کو ورثے میں ملی اور جسے بہتر بنانے اور استحکام کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے حکومت نے اپنی معاشی پالیسیاں ترتیب دیں جن کے کامیاب نفاذ سے نہ صرف معاشی ابتری کو روک دیا گیا ہے بلکہ معیشت کے کئی شعبوں میں ترقی کا پہیہ چل پڑا ہے جس سے آنے والے دنوں میں کاروبار اور عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

(جاری ہے)

فناس ڈویژن کے ترجمان نے مزید کہا کہ میڈیا کے بعض حصوں میں شائع ہونے والی خبریں جن میں عام آدمی کی زندگی مشکل ہونے کے دعوے کے گئے ہیں ، اقتصادی صورت حال کی صحیح عکاسی نہیں کرتیں کیونکہ ایسی خبروں اور دعووں کی تائید میں معاشی اشاریوں بالخصوص بڑھتے ہوئے افراط زر اور دیگر عوامل کو ان کے سیاق و سباق کو واضح کئے بنا پیش کیا گیا ہے جبکہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔

وزارت خزانہ نے واضح کیا ہے کہ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ملکی معیشت کو مالی خسارے ، بیرونی شعبے اور حقیقی معاشی سرگرمیوں جن میں زراعت،صنعت اور خدمات کے شعبے شامل ہیں، سمیت کئی محاذوں پر گوناگوں مسائل اور چیلنجز درپیش تھے۔ معیشت کے بڑے شعبوں میں عدم توازن کو طویل عرصے سے ٹھیک نہ کرنے کی روش اور ایک عرصے سے لٹکی ہوئی سٹرکچرل اصلاحات جیسے مسائل پر قابو پانے کے لیے حکومت کو فوری پالیسی ایکشن لینا پڑا اور حکومت نے جامع معاشی اور اصلاحاتی پالیسیوں کا اجراء کیا جن کے مثبت نتائج ملنا شروع ہو گئے ہیں اورمالی سال2019ء میں3.3 فیصد کی معاشی نمو کا حصول اس کی واضح مثال ہے۔

وزارت خزانہ نے مزید کہا ہے کہ بعض میڈیا رپورٹس میں بڑھتے ہوئے افراط زر کو موضوع بنایا گیا ہے تاہم اس حوالے سے محض اشاریے بتا دیے گئے ہیں جبکہ بڑھتے ہوئے افراط زر کے صحیح اسباب کا بالکل احاطہ نہیں کیا گیا حالانکہ حقیقت میں افراط زر میں اضافے کی اہم وجوہات میں مالی و تجارتی خساروں کا بوجھ تھا جس کی وجہ سے حکومت کو قیمتوں کو بلند سطح پر ایڈجسٹ کرنا پڑا اور درآمد شدہ اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ کرنا پڑی۔

اس کے ساتھ ساتھ بعض کھانے پینے کی اشیاء کی رسد میں مسائل اور سگریٹوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات اورکرنسی کی قدر میں کمی بھی افراط زر میں اضافے کا سبب بنی۔ علاوہ ازیں 2018 میں پالیسیوں میں تناسب اور توازن لانے میں کوتاہی بھی افراط زر میں اضافہ کا سبب بنی جس کی بنا پر موجودہ حکومت کو گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ضروری اضافے، مارکیٹ کی بنیاد پر شرح مبادلہ کے تعین اور معیشت کے بڑے شعبوں میں عدم توازن پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافے جیسے مشکل فیصلے کرنا پڑے۔

اس کے علاوہ حکومت نے حکومتی خرچوں میں احتیاط کے علاوہ ایسی مالیاتی پالیسیاں اپنائیں جس سے مجموعی طلب میں کمی لانے میں کامیابی ہوئی جس کے حصول کو مزید یقینی بنانے اور افراط زر سے پیدا ہونے والے دباؤ کو کم کرنے کے لیے سٹیٹ بنک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ میں13.25 فیصد تک اضافہ کیا۔ وزار ت خزانہ نے مزید کہا ہے کہ حکومت افراط زر میں کمی لانے کے لیے اشیائے صرف کی رسد کو یقینی بنانے، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کی روک تھام اوروفاقی اور صوبائی سطح پر قیمتوں کی نگرانی جیسے اقدامات اٹھائے ہیں جبکہ معیشت کے بڑے شعبوں میں شدید عدم توازن کو دور کرنے اور معیشت کو تسلسل کے ساتھ استحکام اور ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے بعض سخت فیصلے کرنا پڑے جن میں سٹیٹ بنک آف پاکستان سے حکومتی قرضوں جن کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوتا تھا، کے اجراء کوبندکرکے کمرشل بنکوں سے قرضوں کے حصول کی پالیسی اپنائی گئی اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے قیمتوں کی نگرانی اور ضروری اشیائے خوردنی کی رسد کو یقینی بنانے کے لیے نیشنل پرائس مانٹرنگ پالیسی باقائدہ طور پر کام کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ حکومت نے سپلیمنٹری گرانٹس کے اجراء پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو امیر طبقوں تک محدود رکھا ہے اور300 یونٹوں تک بجلی خرچ کرنے والے افراد جن کی تعداد75 فیصد تک ہے، کے لیے بجٹ میں226.5 ارب روپے کی خطیر رقم بطور سبسڈی مختص کی گئی ہے۔اسی طرح حکومت نے روٹی تندوروں کو گیس کی مد میں ڈیڑھ ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔

حکومت نے سماجی تحفظ کی مد میں غربت میں کمی لانے کے لیے بجٹ میں اضافی80 ارب روپے مختص کئے ہیں جس سے سوشل سیفٹی نیٹ پروگرام کے تحت رقم کو ایک ارب روپے سے بڑھا کر90 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ترجمان وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ حکومت نے نیشنل ایگری کلچر ایمر جنسی پروگرام کے تحت 13 میگا منصوبے منظور کئے ہیں جن پر287 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی جائے گی۔

اسی طرح مالی سال 2020 ء کے جولائی ستمبر عرصے میں برآمدات میں2.4 فیصد اضافہ ہوا اور اس عرصے کے دوران 6.033 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں جبکہ گذشتہ سال اسی عرصہ کے دوران5.893 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔ اسی طرح ما لی سال 2020 کے جولائی ستمبر عرصے میں درآمدات میں22.7 فیصد کمی واقع ہوئی اور کل ملا کر11.032 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں جبکہ گذشتہ سال اسی عرصے کے دوران14.275 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں جس کی وجہ سے تجارتی خسارے میں34.85 فیصد یا 5.727 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔

وزارت خزانہ نے کہا کہ حکومت کے پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر کے پروگرام سے لگ بھگ40 مختلف صنعتوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح کامیاب جوان پروگرام کے تحت ایک لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک کے لگ بھگ110,000 قرضہ جات6 فیصد کی رعایتی شرح سود جبکہ پانچ لاکھ سے پچاس لاکھ روپے تک لگ بھگ29,000 قرضہ جات محض8 فیصد رعایتی شرح سود پر دیئے جائیں گے جس کے لیی15 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی جائے گی۔

علاوہ ازیں حکومت نے وزیر اعظم کے یوتھ سکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے بجٹ میں5 ارب روپے مختص کئے ہیں جبکہ حکومت نی2019 ء میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک لاکھ نوکریوں کے مواقع پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے جبکہ آئی ٹی سیکٹر کے لیے بجٹ میں11.14 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اسی طرح کیلنڈر سال2018ء میں بیرون ملک نوکریوں کے لیے تین لاکھ بیاسی ہزار چار سو انتالیس افراد کا اندراج ہوا جبکہ جنوری تا اگست2019ء کے عرصے میں بیرون ملک نوکریاں حاصل کرنے والے تین لاکھ تہتر ہزار دو سو پچیس افراد کا اندراج کیا جا چکا ہے جبکہ اس عرصہ کے دوران پچھلے سال محض دو لاکھ چوالیس ہزار پانچ سو چار افراد درج ہوئے تھے۔

وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ حکومت نے کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کے شعبہ میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس ضمن میں دس میں سے چھ اشاریوں میں نمایاں بہتری آئی ہے جس کی بنا پر عالمی بنک نے پاکستان کو کاروباری آسانیاں پیدا کرنے والے بیس بہترین ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کے فروغ کے لیے کئی ترغیبات و رعایتیں فراہم کی ہیں اورسرمایہ کاروں کے اعتماد کو بڑھانے کے لیے ایک آزاد سرمایہ کاری ماحول فراہم کیا ہے جس کی بنا پر مالی سال2020ء کے ستمبر کے مہینے میں385.3 ملین ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی ہے جبکہ گذشتہ مالی سال کے ماہ ستمبر میں بیرونی سرمایہ کاری کا حجم182.1 ملین ڈالر تھا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں