ڈاکٹرعلی یاسر دھیمے لہجے کے خوبصورت شاعر تھے، وہ سیلف میڈ اور عملی زندگی میں خوش گفتار اور نفیس انسان تھے، وہ دفتری کام کو ذاتی کام سمجھ کر انتہائی تندہی کے ساتھ انجام دیتے تھے

سیکرٹری قومی تاریخ و ادبی ورثہ غزالہ سیفی کا اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام ڈاکٹر علی یاسر ریفرنس سے خطاب

جمعرات 20 فروری 2020 00:13

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 فروری2020ء) سیکرٹری برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن غزالہ سیفی نے کہا ہے کہ ڈاکٹرعلی یاسر دھیمے لہجے کے خوبصورت شاعر تھے، وہ سیلف میڈ اور عملی زندگی میں خوش گفتار اور نفیس انسان تھے، وہ دفتری کام کو ذاتی کام سمجھ کر انتہائی تندہی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ڈاکٹر علی یاسر ریفرنس میں کیا۔

مجلس صدارت میں افتخار عارف، محمد اظہار الحق، علی اکبر عباس اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد تھے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین محمد سلمان نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ ریفرنس میں علی یاسر کے صاحبزادے عمار علی یاسر بھی موجود تھے۔ ممتاز دانشور اور اہل قلم نے ڈاکٹر علی یاسر کی شخصیت اور فن کے حوالہ سے گفتگو کی۔

(جاری ہے)

نظامت عابدہ تقی نے کی۔

ریفرنس میں نیشنل بک فائونڈیشن کی طرف سے ڈاکٹر علی یاسر کی نئی شائع ہونے والی کتاب ’’-تصور فنا و بقا اُردو غزل کے تناظر میں‘‘ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے پروفیسر جلیل عالی کو پیش کی۔ پروگرام کے اختتام پر دعائے مغفرت کی گئی۔ غزالہ سیفی نے کہا کہ اکادمی کے متعلق پروگراموں میں علی یاسر کو ہمیشہ چاق و چوبند پایا۔ اکادمی ایک محنتی آفیسر اور خوبصورت لکھنے والے سے محروم ہو گئی جس کا ہم سب کو دُکھ ہے اور اس کا ازالہ ناممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی شاعری سنی ہے وہ ایک عمدہ لکھنے والے اور اچھے شاعر تھے یقیناً وہ بہت ترقی کرتے لیکن اب بھی ان کی تخلیقات پڑھنے والوں کیلئے قیمتی سرمایہ ہے، ان کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ جس کا عنوان ’’-تصور فنا و بقاء اُردو غزل کے تناظر میں‘‘ ہے یہ یقیناً اپنے معیار کے اعتبار سے اہم کتاب ہے جس میں انہوں نے اسلام اور دیگر مذاہب و فلسفہ کے تناظر میںاس موضوع کو دیکھا ہے، میری دعا ہے کہ خدا ان کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔

افتخار عارف نے کہا کہ علی یاسرکی موت کی خبر نے رلا دیا ہے، اس میں آگے بڑھنے کی صلاحیت تھی اور اس کے ارادے مستحکم تھے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، وہ مختصر قیام کے بعد دوستوں کو الوداع کہتے ہوئے اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ راولپنڈی/اسلام آباد کی پروین شاکر کی ناوقت موت کے بعد یہ دوسرا بڑا سانحہ ہے جس نے پوری ادبی برادری کو افسردہ اور رنجور کر دیا، علی یاسر ہمہ وقت شاعر تھا، قلم سے وابستگی کل وقتی تھی، ادب، ریڈیو، ٹی وی، ادبی سرگرمیاں اور اکادمی کی ذمہ داری میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔

محمد اظہار الحق نے کہا کہ علی یاسر ا ن نوجوانوں میں سے تھے جن میں روشن مستقبل صاف نظر آرہا تھا۔ابھی ان کا عروج شروع ہوا تھا اور انہوں نے بہت آگے جانا تھا مگر افسوس وہ ہم سے بچھڑ گے۔ ہم نے علی یاسر کو نہیں اپنے مستقبل کو کھو دیا ہے۔ علی اکبر عباس نے کہا کہ علی یاسراس شہر کے لیے اللہ کی ایک نعمت کے طور پر آیا تھا۔ اہل شہر نے اس کو بڑی محبت سے جگہ دی اور وہ خود بھی اپنی جگہ بناتا چلا گیا۔

اہل اسلام آبادایک دوسرے کو پوچھ رہے ہیں کہ علی یاسر کہاں چلا گیا۔ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے کہا کہ زندگی کے منظرنامے سے علی یاسر کا یوں اُٹھ جانا ایک دردناک کہانی اور ایک درد انگیز سانحہ ہے جسے دل ماننے کو تیار نہیں۔ علی یاسر ایک فعال، متحرک، بے قرار اور سیماب صفت نوجوان تھااس نے عزم و ہمت ، جرأت و جواں مردی اور جلوہ ٴ شوق سے اپنے لئے راستہ بنایا تھا۔

اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین محمد سلمان نے کہا کہ ڈاکٹر علی یاسر کی وفات سے اکادمی ادبیات کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ اور شاعروں کی برادری کو بھی ایک بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ ڈاکٹر علی یاسر اکادمی ادبیات کے محنتی افسر اور مشہور شاعر تھے۔ اشارہ کے چیئرمین جنید آذر نے کہا کہ علی یاسر نے ادب کے فروغ میںجو کردار ادا کیا وہ کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔

علی یاسر کے بیٹے عمار علی یاسر، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، سرفراز شاہد، ڈاکٹر راشد حمید، پروفیسر جلیل عالی، ضیاء الدین نعیم،محمد حمید شاہد، شاہین سلطانہ، حسن عباس رضا، نجیبہ عارف، ڈاکٹر حمید قیصر، شکیل اختر، انیق الرحمن ، شہباز چوہان، افشاں عباسی، مظہر شہزاد، وجیہہ نظامی، سلطان شاہین، پروین طاہر، فرحین چوہدری، ڈاکٹر فرحت عباس، زاہد جتوئی، محبوب ظفر، انجم خلیق، درشہوار توصیف، شمیم حیدر سید اور دیگر نے ڈاکٹر علی یاسر کے فن اور شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں