قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے اردو کے نفاذ کے قومی دن پر متفقہ قرارداد منظور کرلی

ْ اردو کا فی الفور عملی نفاذ یقینی بنایاجائے، تمام دفاتر میں اردو رائج کی جائے، قرارداد

منگل 25 فروری 2020 18:09

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 فروری2020ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے آئین کے آرٹیکل 25 میں ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا اور اردو کے نفاذ کے قومی دن پر متفقہ قرارداد منظور کی گئی جبکہ مادری زبانوں کے بل پر مزید غور کے لئے ذیلی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کا اجلاس منگل کو کمیٹی کے چیئرمین ریاض فتیانہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

رکن کمیٹی امجد علی خان نے اس موقع پر کہا کہ لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل (ترمیمی) بل پر پاکستان بار کونسل سے ابھی تک جواب نہیں آیا، جب تک جواب نہیں آتا اس بل کو ملتوی کیا جائے۔ ان کی درخواست پر چیئرمین کمیٹی نے بل پر بحث آئندہ اجلاس تک موخر کر دی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 89 میں ترمیم پر عبدالقادر پٹیل کا بل بھی موخر کر دیا گیا۔

ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ میرے بل میں بنیادی حقوق سے متعلق ہر قسم کے امتیاز کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کمیٹی نے آئین کے آرٹیکل 25 میں ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ بل کی تمام شقوں کی منظوری آئین سے کہیں بھی متصادم نہ ہونے سے مشروط ہوگی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کھیسومل داس نے ملک کی مختلف مادری زبانوں کا بل پیش کیا۔

وزارت قانون نے اردو کے علاوہ کسی بھی مادری زبان کو قومی زبان قرار دینے کی مخالفت کی۔ سیکرٹری قانون نے کہا کہ اردو قومی زبان ہے اسے ہی وفاق پاکستان میں مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔ رکن کمیٹی چوہدری محمود بشیر ورک نے کہا کہ اردو کسی صوبے کی زبان نہیں یہ چاروں صوبوں اور دنیا میں پاکستان کی پہچان ہے، بار بار صوبوں کو جوڑنے والی زبان اردو کو پتہ نہیں کیوں کمزور کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں مادری زبانوں کے نام پر پھیلی آگ کو یہاں نہیں لانا چاہئے، ایم کیو ایم نے بھی اردو کے علاوہ مادری زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے کی مخالفت کی۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ دفتری اور ابلاغی زبان اردو ہی ہونی چاہئے۔ تحریک انصاف کے رکن لال چند ملہی نے مادری زبانوں کے بل کی حمایت کی۔ شیر علی ارباب نے کہا کہ سات مادری زبانوں کو قومی زبانیں قرار دیں گے تو باقی زبانیں کیوں محروم رہیں انہوں نے کہا کہ پندرہ سال میں اردو کو قومی دفتری زبان کیوں نہ بنایا جاسکا۔

سیکرٹری قانون و انصاف نے کہا کہ اردو کے عملی نفاذ کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے، پارلیمنٹ جو بھی فیصلہ کرے عمل کرنے کو تیار ہیں۔ چوہدری محمود بشیر ورک نے کہا کہ بل پر پہلے بھی بحث ہوئی ہے اس کو دوبارہ دیکھ لیا جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے مادری زبانوں کے بل پر مزید غور کے لئے ذیلی کمیٹی قائم کر دی۔ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے اردو کے نفاذ کے قومی دن پر متفقہ قرارداد منظور کرلی۔

قرارداد میں کہا گیا کہ اردو کا فی الفور عملی نفاذ یقینی بنایاجائے، تمام دفاتر میں اردو رائج کی جائے، تمام مادری زبانوں کی بھی ترویج کی جائے۔ اجلاس میں نیب ترمیمی آرڈیننس پر غور کیا گیا۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے نیب قانون پر فیصلے کو ایک سال ہوگیا، تاجروں اور بیوروکریٹس کو لچک مل رہی ہے تو اچھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نیب کی متعدد شقوں کو غیر اسلامی قرار دے چکی ہے۔

عالیہ کامران نے کہا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس امتیازی قانون ہے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو تفصیل سے پڑھ لیا جائے۔ نیب آرڈیننس پر بحث آئندہ اجلاس تک موخر کر دی گئی۔ اجلاس میں رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق، امجد علی خان، ڈاکٹر نفیسہ شاہ، عالیہ کامران، چوہدری محمود بشیر ورک، شیر علی ارباب، سید نوید قمر، سیکرٹری قانون وانصاف اور دیگر سرکاری حکام نے شرکت کی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں