حکومت نے کوروناوائرس سے نمٹنے اورگزشتہ حکومتوں سے ورثہ میں ملے اقتصادی مسائل کو بہترطریقے سے سلجھاکر ملک کو ایک بڑی تباہی سے محفوظ رکھا،مشکل فیصلوں کی وجہ سے سیمنٹ، کھاد اورآٹو جیسے بڑے شعبہ جات میں ایک ایسے وقت میں بڑھوتری ہوئی ہے جب کوویڈ19 کی وجہ سے عمومی طورپرسست روی کا رحجان ہے، تنقید کے باوجودحکومت نے کوروناوائرس سے پیداہونے والے بحران سے نمٹنے کیلئے جو طریقہ کاراختیارکیا وہ قابل تعریف ہے، اے کے ڈی سیکورٹیز کی جانب سے جاری تحقیقی مقالہ

اتوار 9 اگست 2020 18:30

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اگست2020ء) پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کوروناوائرس کی عالمگیروبا سے نمٹنے اورگزشتہ حکومتوں سے ورثہ میں ملے اقتصادی مسائل کو بہترطریقے سے سلجھانے کے ذریعہ ملک کو ایک بڑی تباہی سے محفوظ رکھا۔یہ بات اے کے ڈی سیکورٹیز کی جانب سے جاری ہونے والے تحقیقی مقالہ میں کہی گئی ہے۔اس مقالہ میں کہاگیا ہے کہ آزادانہ اورغیرجانبدرانہ اندازمیں حکومت کی کارگردگی کا اگرجائزہ لیاجائے تو تمام ترتنقید کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت نے جہاں معاشی حکمت عملی کے تحت 1240 ارب روپے سے زائد کے میگاامدادی پیکج وتعمیرات کیلئے سہولیاتی وترغیباتی پیکج دیے ہیں وہی سماجی اقدامات کے تحت سمارٹ لاک ڈاون اوراحساس پروگرام کے ذریعہ ایک بڑی تباہی اورنقصان کو رونما ہونے سے روک دیا گیا۔

(جاری ہے)

ریسرچ پیپرکے مطابق حکومت کی جانب سے کئے گئے مشکل فیصلوں کی وجہ سے بڑے شعبہ جات جیسے سیمنٹ، کھاد اورآٹو وغیرہ میں ایک ایسے وقت میں بڑھوتری ہوئی ہے جب کوویڈ19 کی وجہ سے عمومی طورپرسست روی کا رحجان ہے۔ ملک کے بہتراقتصادی پیش منظرکی عکاسی بینچ مارک سٹاک انڈکس کی کارگردگی سے بھی ہورہی ہے ۔ کے ایس ای 100 انڈکس میں 25 مارچ کے بعدسے لیکراب تک 46.2 فیصد اضافہ ہواہے۔

25 مارچ کو کے ایس ای 100 انڈکس 27229 پوائنٹس تھا جو اس وقت 38836 پوائنٹس کے لگ بھگ ہے۔پاکستان سٹاک ایکسچینج کو دنیاء کی بہترین کارگردگی کے حامل سٹاک ایکسچینج کااعزازحاصل ہوا۔گزشتہ حکومت کے دورمیں بظاہراقتصادی اشاریے بہتردکھائی دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی معیشت خسارہ کی معیشت تھی۔مالی سال 2018ء میں حسابات جاریہ کاخسارہ 6.3 فیصد جبکہ مالیاتی خسارہ 6.6 فیصد تھا۔

قرضوں کی وجہ سے بڑھوتری ناپائیدارتھی۔مالی سال 2018ء میں تجارتی خسارہ مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کے 9.9 فیصد کے ریکارڈسطح پرپہنچ گیاتھا ، اس صورتحال میں برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں دوگنا سے زائداضافہ ہوا، گزشتہ حکومت کے دورمیں ملکی کرنسی کی قیمت کومصنوعی طورپرمستحکم رکھاگیا۔ مالی سال 2018ء میں سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 9.76 ارب ڈالرتک گرگئے، مالی سال 2016ء میں زرمبادلہ کے ذخائر18.1 ارب ڈالر تھے۔

اس وقت سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائرکاحجم 12.1 ارب ڈالرہے، ملکی معیشت سست روی مگریقینی طورپراصلاح کی سمت میں گامزن رہی اس دوران کورونا وائرس کی عالمگیروبا نے دنیا کے دیگرممالک کی طرح پاکستان کو بھی متاثرکیا جس سے اقتصادی بحالی کاعمل ڈی ریل ہوا۔ مقالہ میں کہاگیاہے کہ سبھی حلقوں کی جانب سے تنقید کے باوجودحکومت نے کوروناوائرس سے پیداہونے والے بحران سے نمٹنے کیلئے جو طریقہ کاراختیارکیا وہ قابل تعریف ہے۔

پاکستان ان اولین ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے کورونا وائرس سے نمٹنے اورمختلف طبقات پراس کے اثرات کو کم کرنے کیلئے رواں سال مارچ میں 1240 ارب روپے کے اقتصادی پیکج کے اعلان سمیت کئی اقدامات اٹھائے۔ پاکستان ان ممالک میں بھی سرفہرست رہاجنہوں نے سمارٹ لاک ڈاون کا تصورپیش کیا،اسی طرح پاکستان ان ممالک میں بھی سرفہرست ہے جس نے ترقی پذیرممالک اورمعیشتوں کے ذمہ واجب الاداقرضوں کو موخرکرانے کی لابنگ کی۔

مالیاتی اثرات کو کم کرنے کیلئے سٹیٹ بینک نے دنیا کے سب سے جارحانہ مانیٹری ایزنگ سائیکل کا آغازکیا اورشرح سود کو 13.25 فیصد سے کم کرکے 7 فیصد کی سطح پرلایاگیا۔ تحقیقی مقالہ کے مطابق تعمیرات کے شعبہ کیلئے مراعاتی وترغیباتی پیکج اقتصادی پہیہ کوجلد رواں رکھنے کی استعدادرکھتاہے۔ نیاپاکستان ہاوسنگ سکیم کے تحت 30 ارب روپے کی سبسڈی اورٹیکسوں میں 90 فیصد کی چھوٹ سے نہ صرف وزیراعظم عمران خان کے اس سکیم کو آگے بڑھانے میں مددملے گی بلکہ اضافی طلب بھی پیداہوگی۔

اس کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت منصوبوں نے ایک بارپھر رفتارپکڑلی ہے، حال ہی میں کشمیرمیں دوہائیڈل منصوبوں (کوہالہ ،آزادپتن ہائیڈروپراجیکٹ) پر دستخط ہوئے ہیں جن کی مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 3.9 ارب ڈالرہے۔ اسی طرح ایم ایل ون منصوبہ پرکام جلد شروع ہونے کاامکان ہے، ایم ایل ون سی پیک کا سب سے زیادہ سرمایہ کاری کاحامل منصوبہ ہے جس پرمجموعی سرمایہ کاری کاحجم 7.2 ارب ڈالرہے۔

ان بڑے منصوبوں سے تعمیرات میں طلب میں اضافہ ہوگا اورتعمیرات ومنسلکہ صنعتوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی۔اسی طرح توانائی کے شعبہ میں گردشی قرضوں کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں اب تک توانائی کے شعبہ کیلئے دوسکوک جاری کئے گیے ہیں اورایک سال میں 400 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ برآمد کنندگان کیلئے مراعات وترغیبات دینے سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں کمی کوروکا کیا،کوویڈ 19کی وجہ سے مئی 2020 میں ٹیکسٹائل برآمدات کاحجم 1.2 ارب ڈالرتک گرگیاتھا ، جون 2020 ء میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کا حجم 1.58 ارب ڈالرریکارڈکیاگیا۔

اس وقت پاکستا ن کے ٹیکسٹائل برآمدکنندگان کے پاس ایپرل سے لیکرفیس ماسک تک کے آرڈرزموجودہیں۔ مقالہ میں کہاگیاہے کہ زراعت کومعاونت فراہم کرنے کیلئے حکومت نے اس شعبہ کیلئے 50 ارب روپے کے پیکج کااعلان کیاہے، جنوری 2020 میں حکومت نے گیس انفراسٹرکچرڈولپمنٹ سیس کوختم کرنے کااعلان کیاجس سے کھادوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی ۔پی ٹی آئی کی حکومت کی کارگردگی کامل نہیں ہوں گی تاہم کھادکی فی بوری قیمت میں 400 روپے کی کمی کو دیکھاجائے تو تنقید غیرمنصفانہ لگتی ہے۔

موجودہ حکومت کے برسراقتدارآنے سے قبل ہی اقتصادیات سے متعلق ڈھانچہ جاتی مسائل بالخصوص معیشت کی ڈالرائزیشن نے بہت نقصان پہنچایاتھا۔ طویل بنیادوں پرحکومت کو اپنے دیرینہ دوست سعودی عرب کی پیروی کی ضرورت ہے جہاں ولی عہد شہزادہ سلمان نے سعودی معیشت کو مکمل طورپرنئی بنیادوں پراستوارکرنے کیلئے وژن 2030 پرعمل درآمدکاآغازکیاہے۔ اس ضمن میں چین سے آزادانہ تجات کا معاہدہ ایف ٹی اے ٹو حکومت کا اہم کارنامہ ہے ،ترکی کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے کو بھی حتمی شکل دی جارہی ہے۔

مقالہ میں کہاگیاہے کہ پائیداربڑھوتری کے نکتہ نظرسے طویل المعیادمنصوبہ بندی وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کوچین اورامریکا کے درمیان تجارتی چپقلش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رملک میں ویت نام اوربھارت کی طرح مینوفیکچرنگ کی تنصیبات قایم کرناچاہئیے۔ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کاشعبہ بدستورنوآموزہے، پاکستان اس شعبہ پرتوجہ دیکرمستقبل میں خدمات کی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ کرسکتاہے۔ پاکستان کو آئی ٹی کے شعبہ میں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ بھارت کی آئی ٹی برآمدات کا حجم 2018 میں 99 ارب ڈالرتھا۔پاکستان کی آئی ٹی برآمدات گزشتہ مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ میں 1.3 ارب ڈالرمالیت کی تھیں ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں