اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام جشن آزادی کے حوالے سے "پاکستانیت کا تصور:امکانات و حدود" کے عنوان سے آن لائن مباحثہ کا انعقاد

جمعرات 13 اگست 2020 18:55

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 اگست2020ء) اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام جشن آزادی کے حوالے سے آن لائن "ہفت روزہ تقریبات جشن آزادی"کے سلسلے میں مباحثہ "پاکستانیت کا تصور:امکانات و حدود" منعقد ہوا۔ شرکاء گفتگو ڈاکٹرعابد سیال، ڈاکٹر فرخ ندیم اور ڈاکٹر روش ندیم تھے۔ ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین، اکادمی ادبیات پاکستان نے تعارفی کلمات پیش کے اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستانیت کا تصور ابھر کر سامنے آیا جس کی بنیاد پاکستان بننے سے پہلے ہی پڑگئی تھی۔

پاکستان بننے کے بعد قائداعظم نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان کے رہنے والے مسلم یا غیر مسلم سب برابر ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد قوم نے پاکستانیت تشکیل پائی جس میں تہذیب، ثقافت اور ادب شامل ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹرعابد سیال نے کہا کہ پاکستانیت کے تصور کو ابھی عملی شکل دینے کی ضرورت ہے، ماضی میں جو کچھ ہوا اس سے ہمیں آگے کا سفر درپیش ہے۔ ہمیں اب اجتماعی سوچ کے تحت ترقی کا سفر طے کرنا ہے،ہر لحاظ سے اتفاق، اتحاد کی ضرورت ہے اور عناداور منافرت کو ختم کرناہوگا۔

پاکستان کے تمام صوبوں کے کلچر اور زبانوں کے رنگوں کو یکجا کر کے قومیت کے رنگ میں رنگنا ہو گا۔ پاکستان کے تمام زبانیں اورکلچرایک گلدستہ کی مانند ہیں۔ مذہب اورآئین میں کوئی تضاد نہیں۔ یہی پاکستان کے مستقبل کے لیے ضروری ہے۔ ڈاکٹر فرخ ندیم نے کہا کہ نظریہ کے ساتھ ہمیں تمام صوبوں کے کلچر، تہذیب و ثقافت کو یکجا کر کے ایک قلیت کی شکل میں لانا ہے۔

آج بھی ادیب ثقافت سے جڑا ہوا ہے اور ادیب ہی اس کے لیے کوئی راستہ نکال سکتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح غیر محسوساتی طور پر سامراج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنے کلچر سے اکھڑے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرخالد فیاض نے کہا کہ پاکستان کے اند ر کلچر اور زبانوں کے اشتراک سے عوام کو جوڑ سکتے ہیں اس کے لیے نظام تعلیم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف پاکستانیت کی سوچ کو پروان چڑھانا ہو گا۔ ادیبوں نے ہر دور میں یہ فریضہ انجام دیا ہے کبھی عناداورنفرت کی بات نہیں کی۔ڈاکٹر روش ندیم نے کہا کہ جس خطے میں پاکستان موجود ہے یہ خطہ صدیوں سے انڈس ویلی کے نام سے موجود رہا۔ ا س خطے کا کلچراورتہذب ہندوستان اور دیگرسے مختلف ہے۔ ہمارا ادیب اس کلچر کا ترجمان رہا ہے، ہمیں پاکستانیت کی سوچ کو آگے بڑھانا ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں