سی سی پی کا وفاقی حکومت کی طرف سے زیر التواء عدالتی مقدمات کے حل کرنے میں اظہارِ تشکر

منگل 27 اکتوبر 2020 23:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 اکتوبر2020ء) لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی فل بینچ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں کمپٹیشن ایکٹ 2010 کو آئینی طور پر درست قرار دیا ہے اور فیڈریشن کی کمپٹیشن کے حوالے سے قانون سازی کے اختیار کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستوں کو مسترد کردیا ہے ۔ سی سی پی وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل کے آفس کی طرف سے زیر التواء عدالتی مقدمات کے ایک دہائی پُرانے مسئلے کو حل کرنے میں معاونت کامعترف ہے۔

فل بینچ کے فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ کمپٹیشن سے متعلق قانو ن سازی کا اختیار رکھتی ہے ۔ اقلیت میں ، جسٹس عائشہ ملک نے موقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار اور سی سی پی کا کمپٹیشن کو ریگیولیٹ کرنے کا دائرہ اختیار تمام بین الصوبائی اور اندرون صوبائی معاملات تک پھیلا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

تاہم ، دو ججوں نے اکثریت سے کہا کہ اگرچہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار بین الصوبائی تجارت پر پھیلا ہوا ہے ، تاہم ، اگر سی سی پی کسی معاملے کو پرکھنا چاہتی ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ زیرِبحث تجارتی سرگرمی کا اثر ایک صوبے کی حدو د سے متجاوز ہے۔

پارلیمنٹ کے ارادے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ، فل بنچ نے کمپٹیشن ایکٹ کی دفعہ 62 کو برقرار رکھا جس میں سی پی سی کے تمام اقدامات ، احکامات ، اور کاروائیوں کی کمپٹیشن آرڈیننس 2007 کے اجراء کی تاریخ سے توثیق کی گئی ۔ اس کا مطلب ہے یہ کہ 2007 کے آرڈیننس اور اس کے ساتھ ساتھ کمپٹیشن ایکٹ 2010 کے تحت اور اس کے بعد سے جاری کردہ کمیشن کے تمام اقدامات ، کاروائیاں ، احکامات کی بھی توثیق ہو گئی ۔

درخواست گزاروں نے کمپٹیشن کمیشن کے ریگولیٹری اور عدالتی اختیارات کی حیثیت کو بھی چیلنج کیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کا یہ کہنا تھا کہ سی سی پی کے فیصلے اور انفورسمنٹ کے اختیارات اس کے انتظامی قانون اور ریگولیٹری پاور کا ایک حصہ ہے۔ جہاں تک کمپٹیشن اپیلٹ ٹریبونل کا تعلق ہے تو ، عدالت نے 2-1 کی فیصلے میں کہا ہے کہ کمپٹیشن اپیلٹ ٹریبونل 'عدالتی اختیارات' استعمال کرتا ہے اور اس کے ممبروں کی تقرری کو عدالت عظمیٰ کے زیر نگرانی 2013 میں شیخ ریاض الحق کیس کی روشنی میں ہونا چاہئے۔

وفاقی حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ساٹھ (60) دن کی مہلت دی گئی ہے کہ شیخ ریاض کیس کے تناسب کی تعمیل کی جائے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2008 کے بعد سے حکم امتناعی کے نتیجے میں سی سی پی کے انفورسمنٹ کے اختیارات کو سخت رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ تاہم یہ فیصلہ خاص طور پرکمپٹیشن کمیشن اور پاکستان کے آئین کے لئے ایک بہت بڑا لمحہ ہے۔ یہ تاریخی فیصلہ کمیشن کے لئے دوسرا اہم سنگ میل ہے کیونکہ پہلا کمپٹیشن لاء کا 2007 میںآرڈیننس سے اکتوبر 2010 میں ایکٹ میں تبدیل ہونا تھا اور یہ موجودہ چیئر پرسن راحت کونین حسن کے سابقہ دور میں ہوا تھا ۔

2007 اور 2010 کے درمیان جب راحت کونین حسن بطور ممبر خدمات سرانجام دے رہی تھی ، سی سی پی نے 7.2 ارب کے جرمانے عائد کیے ، جو اُن کی 2010 میں بطورِ چیرپرسن تعیاناتی کے بعد 21.63 ارب کے اضافے کے ساتھ 28 ارب تک پہنچ گئے ۔ اٹارنی جنرل خود وفاقی حکومت کی جانب سے پیش ہوئے اور کمیشن کی نمائندگی مسٹر عزیز نفیس ، بیرسٹر وقاص احمد میر ، مسٹر مقطیر اختر شبیر اور ڈاکٹر عظیم راجہ ، مسٹر محمد احمد قیوم ، اور وکلا کی ٹیم نے کی جس میں . رضوان مشتاق ، جناب اشفاق قیوم چیمہ اور مسٹر مورس ندیم ، مسٹر سلمان منصور ، جناب احمد حسن انوری ، مسٹر بابر سہیل ، مسٹر عمران محمد سرور ، جناب احمد حسن خان ، مہر محمد اقبال اور مسٹر عمران۔

خان کلیر ، جناب ناصر محمود قریشی ، جناب امجد حمید غوری ، جناب سلطان قمر افضل بھی شامل تھے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں