سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس

موٹر ویز پر قائم سروسز ایریا میں مہنگی اور غیر معیار ی اشیاء کی فروخت پر شدید تشویش کا اظہار اجلاس میں ذیلی کمیٹی برائے مواصلات کی سفارشات برائے مانسہرہ سروس ایریا اور ایم 5- پر سروس ایریا پی ایس او کو دینے کے معاملہ زیر غور آیا ہائی ویز اور موٹرویز کے منصوبوں کیلئے بیڈنگ، ٹینڈرنگ اور پروکرومنٹ کے عمل کے حوالے سے اہلیت کا طریقہ کار اور قواعد و ضوابط بشمول کنسلٹنٹ کے این ایچ اے کے منصوبوں میں کردار،سینیٹر سسی پلیجو کے 6جنوری 2020کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے اٴْن کے حلقہ پی ایس 85میں گیس کی اسکیموں کے معاملہ پر بھی زیر بحث رہا

منگل 26 جنوری 2021 19:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 جنوری2021ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر ہدایت اللہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا اجلاس میں کمیٹی اراکین سینیٹر ز لیاقت تراکئی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی، میر محمد یوسف بادینی، ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی،احمد خان، فدا محمد، بہرہ مند خان تنگی اور ڈاکٹر اشوک کمار کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری مواصلات طارق بخش، چیئرمین این ایچ اے کیپٹن (ر) سکندر قیوم، ممبر پی ای سی انجینئر محمد وسیم اشفاق، ڈی سی مانسہرہ،این ایچ اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں ذیلی کمیٹی برائے مواصلات کی8 اکتوبر2020 کو منعقدہ اجلاس میں دی گئی سفارشات برائے مانسہرہ سروس ایریا اور ایم 5- پر سروس ایریا پی ایس او کو دینے کے معاملہ، ہائی ویز اور موٹرویز کے منصوبوں کیلئے بیڈنگ، ٹینڈرنگ اور پروکرومنٹ کے عمل کے حوالے سے اہلیت کا طریقہ کار اور قواعد و ضوابط بشمول کنسلٹنٹ کے این ایچ اے کے منصوبوں میں کردار،سینیٹر سسی پلیجو کے 6جنوری 2020کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے اٴْن کے حلقہ پی ایس 85میں گیس کی اسکیموں کے معاملے، سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی کے معاملہ برائے کاغان سے بابو سرٹاپ روڈ کی تعمیر کے حوالے سے حاصل کی گئی زمین کے مالکان کو ادائیگی کے معاملہ کے علاوہ، سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کے سینیٹ اجلاس میں پوچھے گئے سوال نمبر56 برائے نیشنل ہاویز اور موٹر ویز پر قائم شدہ ٹول پلازوں کی تعداد، ٹول پلازوں کے حوالے سے عدالتوں میں کیسز، بی او ٹی کے حوالے سے طریقہ کار کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

کمیٹی اجلاس میں سینیٹر سسی پلیجو کے 6جنوری 2020کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے اٴْن کے حلقہ پی ایس 85میں گیس کی اسکیموں کے معاملے کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے فنڈ کی ادائیگی کے حوالے سے ہدایت کی تھی۔قائمہ کمیٹی دوبارہ ہدایت کرتی ہے کہ اسکیموں کیلئے سوئی گیس کو ادائیگی کی جائے تاکہ وہ مکمل ہو سکیں۔

قائمہ کمیٹی معاملے کو ختم کرتے ہوئے اس کی رپورٹ سینیٹ اجلاس میں پیش کر دے گی۔ اجلاس میں سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کے سینیٹ اجلاس میں پوچھے گئے سوال نمبر56 برائے نیشنل ہاویز اور موٹر ویز پر قائم شدہ ٹول پلازوں کی تعداد، ٹول پلازوں کے حوالے سے عدالتوں میں کیسز، بی او ٹی کے حوالے سے طریقہ کار کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیشنل ہاویز پر 85 ٹول پلازہ قائم کیے گئے ہیں جبکہ موٹرویز ایم ون پر13، ایم فور پر18،ای35 پر8، ایم تھری پر8 اور ایم فائیو پر12 ٹول پلازے قائم کیے گئے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بی او ٹی کے تحت ایم II پر 21 ٹول پلازے،ایم9 پر10 ٹول پلازے اور ایم11 پر 7 ٹول پلازے قائم کیے گئے ہیں۔ ٹول پلازوں کے حوالے سے 25 کیسز عدالتوں میں ہیں جو کلیم کے حوالے سے ہیں۔ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ اراکین کمیٹی کو کمیٹی اجلاس کے دوران ورکنگ پیپر فراہم کیے گئے ہیں بغیر پڑھے کس طرح سوال جواب کر سکتے ہیں۔

ورکنگ پیپر نہ دینے کا مقصد شائد یہی ہو کہ خامیوں کی نشاندہی نہ کی جا سکے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ وقت پر ورکنگ پیپر کی فراہمی کی ہدایت کرتے ہوئے ایجنڈے کو آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا۔ سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں ٹول پلازوں کے حوالے سے جب بھی کوئی ٹینڈر کیا جائے تو وہاں کے مقامی اخباروں میں ضرور اشتہار دینا چاہیے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ذیلی کمیٹی برائے مواصلات کی8 اکتوبر2020 کو منعقدہ اجلاس میں دی گئی سفارشات برائے مانسہرہ سروس ایریا اور ایم 5- پر سروس ایریا پی ایس او کو دینے کے معاملہ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مانسہرہ سروس ایریا کے دو پیکج تھے۔ سروس ایریا میں ٹک شاپ نہیں تھی۔پی ایس او کو سروس ایریا دینے کے حوالے سے بتایا گیا کہ پیٹرول پمپ لگانے کیلئے 2002 میں اشتہار دیا گیا تھا۔

جسے بعد میں واپس لے لیا گیا تو پی ایس او عدالت میں چلا گیا کیونکہ پی ایس او نے پیمنٹ کر دی تھی۔ 2013 میں فیصلہ پی ایس او کے حق میں آیا۔اس کا پھر ٹینڈر کیا گیا تو عدالت میں پی ایس او نے معاملہ اٹھایا تو عدالت کی جانب سے این ایچ اے اور پی ایس او کو افہام تہفیم سے معاملہ حل کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ایک سال سے مشاورت چل رہی ہے اور معاہدہ ہوا ہے کہ ان شرائط پر پی ایس او کو سائٹس دی جائیں گی۔

این ایچ اے بورڈ میں ایجنڈا اٹھایا گیا ہے۔ ایم III کی تین سائٹس کا مین نکال کر آفر کی جائے گی۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے معاملے کو جلد سے جلد این ایچ اے بورڈ میں لے جا کر حل کرنے کی ہدایت کر دی۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی کے معاملہ برائے کاغان سے بابو سرٹاپ روڈ کی تعمیر کے حوالے سے حاصل کی گئی زمین کے مالکان کو ادائیگی کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

ڈائریکٹر لینڈ این ایچ اے نے کمیٹی کو بتایا کہ قائمہ کمیٹی کی ہدایت کے مطابق معزز سینیٹر کے ساتھ بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالنے کا کہا گیا تھا۔کلکٹر سے زمین کے ریٹ لے کر معزز سینیٹر کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ اراضی کی قیمت حاصل کی گئی زمین کے وقت کے 6 فیصد سود کے ساتھ 40کروڑ 80لاکھ روپے بنتی ہے جس میں سے 16 کروڑ 40لاکھ روپے متاثرین اراضی کو ادا کر دیے گئے ہیں بقیہ ادا کر دیں گے۔

اس کے ریوائزڈ پی سی ون پر کام ہو رہا ہے۔سینیٹر لیفٹیننٹ جرنل (ر) صلاح الدین ترمذی نے کہاکہ آج کے ریٹ سے یہ چار گنا کم ہے۔ لوگ بعد میں بھی عدالتوں میں جا سکتے ہیں بہتریہی ہے کہ معاملات کو ابھی سے حل کر لیا جائے۔جس پر چیئرمین این ایچ اے نے دو دن کے اندر ٹائم لائن آگاہ کرنے کی کمیٹی کو یقینی دہانی کرائی۔ سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ این ایچ اے کی روڈ پر مختلف صوبائی محکموں کی فورسز چیکنگ کر کے عوام کو لائنوں میں کھڑا کر دیتے ہیں۔

جس پر چیئرمین این ایچ اے نے کہا کہ این ایچ اے کی1370 کلو میٹر ہائی ویز ہیں مگر سیکورٹی اور امن وامان برقرار رکھنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔ متعلقہ چیف سیکرٹری عوام کی تکلیف کا نوٹس لے سکتے ہیں۔قائمہ کمیٹی نے موثر قواعد و ضوابط اور میکنزم بنانے کی ہدایت کر دی کہ ایک جگہ پر تین تین ادارے سیکورٹی چیک اپ کیلئے نہ کھڑے ہوں۔ قائمہ کمیٹی کو ممبر پاکستان انجینئرنگ کونسل اور پیپرا حکام نے ہائی ویز اور موٹرویز کے منصوبوں کیلئے بیڈنگ، ٹینڈرنگ اور پروکرومنٹ کے عمل کے حوالے سے اہلیت کا طریقہ کار اور قواعد و ضوابط بشمول کنسلٹنٹ کے این ایچ اے کے منصوبوں میں کردارکے حوالے سے تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت پاکستان انجینئرنگ کونسل کام کر رہا ہے اور قواعد و ضوابط کے مطابق کمپنیوں کو لائسنس قانونی ضوابط پورے کرنے پر دیئے جاتے ہیں جس میں ٹیکنیکل، مالی اور تجربے کو بھی دیکھا جاتا ہے۔

سینیٹر میر محمد یوسیف بادینی نے کہا کہ کمپنی کو پی ای سی سے لائسنس ملتا ہے مگر بعد میں ادارے اپنی مرضی کی شرائط لگاتے ہیں لائسنس یا شرائط کو ختم ہونا چاہیے۔ چیئرمین این ایچ اے نے کہاکہ این ایچ اے تمام ٹھیکیداروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور این ایچ اے کے تمام کاموں کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ ٹھیکے کیلئے مالی اور ٹیکنکل کپیسٹی بھی دیکھی جاتی ہے اور ادارے کی کوشش ہوتی ہے کہ کام کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جائے اس کیلئے کچھ شرائط رکھی جاتی ہیں۔

پی ای سی کی گائیڈ لائن اور پیپرا احکامات کے مطابق کام کیے جاتے ہیں۔ممبر پی ای سی نے آگاہ کیا کہ لائسنس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ کوئی کمپنی کام کے اہل ہو گئی ہے۔ کلائنٹ چیزیں ڈال سکتے ہیں۔ کاغذات، ورک آرڈر کی تصدیق کرائی جاتی ہے۔ پیپرا حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ منصوبوں میں کام کے معیارکو بہتر بنانے کیلئے پیپرا رولز میں ترامیم مرتب کی جارہی ہیں۔

قائمہ کمیٹی نے پیپرا اور پی ای سی کو مل کر موثر ترامیم لانے کی ہدایت کر دی تاکہ منصوبہ جات کو موثر انداز میں مکمل کرایا جا سکے اجلاس کے دوران سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے عوامی اہمیت کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ موٹرویز پر قائم ہوٹلز اور دیگر شاپس پر نہ صرف چیزیں انتہائی مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں بلکہ ان کا معیار بھی خراب ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موٹر ویزپر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ باتھ روم استعما ل کرنے پر چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی یہ مسئلہ کئی بار اٹھایا گیا ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا جائے کہ کتنی دفعہ کھانے کی اشیائ کا معیار چیک کیا گیا ہے اور کتنے لوگوں کے لائسنس معطل کیے گئے ہیں۔جس پر چیئرمین این ایچ اے نے کہا کہ ایم II پر ایگزیکٹو باتھ روم استعمال کرنے پر چارجز وصول کیے جاتے ہیں البتہ کمیونٹی باتھ روم فری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موٹر ویز پر مہنگی اشیائ کا مسئلہ بہت سنجیدہ ہے۔ پی ایم پورٹل پر بھی شکایات وصول ہوئی ہیں۔ مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریٹ لسٹ اور معیار کو چیک کریں۔اس حوالے سے مقامی انتظامیہ کو خطوط بھی لکھے گئے ہیں اور متعلقہ انتظامیہ افسر کا نمبر بھی موٹر ویز پر قائم جگہوں پر لکھ دیا گیا ہے کہ شکایت درج کروا سکیں۔ ایک افسر نے اپنے پی ایس کا نمبر لکھوایا اسے معطل بھی کیا گیا ہے۔

سروسز ایریا کو پابند کیا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ سے منظور شدہ ریٹ لسٹ آویزاں کریں اور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنی شکایت کو متعلقہ انتظامیہ کے فون پر اندراج کروائیں تاکہ ان لوگوں کے خلاف موثر کارروائی کی جا سکے۔ اراکین کمیٹی نے موٹر ویز پر قائم سروسز ایریا میں مہنگی اور غیر معیار ی اشیائ کی فروخت پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔۔۔ظفر ملک

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں