پاکستان، اقوام متحدہ کے سربراہ کا متوسط آمدنی والے ممالک کیلئے قرض معطلی کا مطالبہ

ہفتہ 19 جون 2021 22:12

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 جون2021ء) پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی اس تجویز کی بھرپور حمایت کی ہے کہ کورونا وائرس کے معاشرتی اور معاشی اثرات سے نمٹنے کے لیے متوسطآمدنی والے ممالک کے قرض معطل کردیے جائیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر منیر اکرم جو اقوام متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسل (ای سی او ایس او سی) کے سربراہ بھی ہیں نے کہا کہ 'یہ اہم ہے کہ ہم مراعات یافتہ وسائل اور مالی اعانت تک رسائی میں متوسط آمدنی والے ممالک کی کمزوریوں کو تسلیم کریں۔

سفیر نے متوسط آمدنی والے ممالک کو درپیش اہم مسائل میں 'قرضے، عالمی معاشی ناہمواریوں اور ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات کے اثرات' کی نشاندہی کی۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے سربراہ نے 'متوسط آمدنی والے ممالک کے قرضوں کو 2022 میں معطل کرنی' کے بارے میں اپنی تجویز کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ان میں سے بہت سے لوگ وبائی بیماری سے پہلے ہی سے پہاڑ جتنے قرضوں سے نمٹ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'اگرچہ قرضوں کے بحران کے بارے میں عالمی سطح پر ردعمل کم آمدنی والے ممالک کی حمایت کرنے کی درست کوشش کر رہا ہے تاہم متوسط آمدنی والے ممالک کو پیچھے نہیں چھوڑنا چاہیی'۔اقوام متحدہ کے سربراہ، سفیر منیر اکرم اور دیگر عالمی رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک اعلی سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ اجلاس جس میں متوسط آمدنی والے ممالک کی مدد کے لیے مختلف تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔

متوسط آمدنی والے ممالک میں عالمی سطح پر غریب عوام میں سے 70 فیصد رہائش پذیر ہیں۔جنوبی ایشیا کے تین بڑی ممالک بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش بھی اس کیٹیگری میں شامل ہیں۔پاکستانی سفیر منیر اکرم نے کہا کہ 'وبائی مرض سے متعدد خطرات اور عدم مساوات سامنے آئے ہیں جو ممالک کے اس متنوع گروہ میں پہلے سے موجود ہیں، ان میں سے بہت سے وبائی مرض سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں'۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ متوسط آمدنی والے گروپ میں ایک ارب سے زیادہ آبادی والا بھارت، اور 20 ہزار سے کم آبادی والا ملک پلاؤ، دونوں شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آبادی کی تعداد کے علاوہ یہ ممالک معاشی سرگرمیوں، جغرافیہ اور فی کس آمدنی کی سطح میں بھی مختلف ہیں جس میں سالانہ ایک ہزار سے لے کر 12 ہزار ڈالر تک ہوتا ہے۔

2020 کی دوسری سہ ماہی میں عالمی سطح پر کام کے اوقات کے نقصانات کا تخمینہ 14 فیصد لگایا گیا ہے۔نچلے درجے کے متوسط آمدنی والے ممالک میں 16.1 فیصد کی کمی ہوگی، توقع ہے کہ 2020 میں ترسیلات درمیانی آمدنی والے ممالک کو کم ملیں گی۔ورلڈ بینک کا تخمینہ ہے کہ 2020 کے آخر میں کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں 27 کروڑ افراد کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں