این ایچ اے خواتین،اقلیتوں اور معذور افراد کے کوٹے کے مطابق بھرتیاں یقینی بنائے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر پرنس عمر احمد زئی

کمیٹی نے این 35منصوبے کے حوالے سے چیف سیکرٹری کے پی کے سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے حکام طلب کرلیا موٹروے پر قائم سروس ایئراز پر اشیاء خوردونوش کی اضافی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے میکنزم مرتب کرے کی ہدایت

جمعہ 22 اکتوبر 2021 17:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اکتوبر2021ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے این 35منصوبے کے حوالے سے چیف سیکرٹری کے پی کے سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے حکام طلب کرتے ہوئے موٹروے پر قائم سروس ایئراز پر اشیاء خوردونوش کی اضافی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے میکنزم مرتب کرے کی ہدایت کی ہے ۔ جمعہ کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر پرنس عمر احمد زئی کے زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں کی گئی تقرریوں اور افسران و سٹاف کی تفصیلات، خواتین اور اقلیتوں کیلئے مختص کوٹے پر کی گئی بھرتیوں کی صوبہ وائز تفصیلات، این ایچ اے میں ڈپوٹیشن پر کام کرنے والے ملازمین کی تفصیلات، مسلم آباد حوالیہ سے شاہینہ جمیل ہسپتال تک نیشنل ہائی وے 35کو کشادہ اور مرمت کے منصوبے کی پیش رفت، سکردو سے جگھ لوٹ روڈ کو کشادہ اور اپ گریڈ یشن کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں کی گئی تقرریوں اور افسران و سٹاف کی تفصیلات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سیکرٹری مواصلات اور ڈائریکٹر ایڈمن این ایچ اے نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی 1991میں قائم ہوا اس سے پہلے یہ نیشنل ہائی وے بورڈ کا ادارہ تھا جس کے 746ملازمین تھے جو این ایچ اے میں شامل کئے گئے۔

1995میں 1109ملازمین کو ریگولر کیا گیا۔ کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز سمیت 2000تک کل ملازمین کی تعداد 1670تھی۔ 2001میں ملازمین کی تعداد کم کر کے 1219کر دئیے گئے اور 2021میں 348 مزید ملازمین سپریم کورٹ کے حکم پر فارغ کر دیئے گئے ابھی 895کل ریگولر ملازمین ہیں اور کلٴْ منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 2184ہے جس میں سے 1337خالی ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2002سے 2016تک 1371ریگولر ملازمین بھرتی کئے گئے اور پی سی ون کے تحت 28سو عارضی ملازمین بھرتی کئے گئے۔

2011میں خورشید شاہ کمیٹی نے تمام کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کی سفارش کی جس کے تحت 1833ملازمین ریگولر کئے گئے کچھ لوگ عدالتوں میں گئے۔قائمہ کمیٹی کو تبایا گیا کہ آغاز حقوق بلوچستان کے تحت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 19افراد کو بھرتی کیا گیا اور 5انومینیٹر کی آسامیاں خالی ہیں۔ رکن کمیٹی سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔

این ایچ اے کے حوالے سے بلوچستان میں آسامیوں کا کوٹہ بڑھایا جائے جیسے چیئرمین کمیٹی نے اراکین کمیٹی کی رائے کے مطابق کوٹہ بڑھانے کی سفارش کر دی۔ قائمہ کمیٹی کو صوبہ بلوچستان میں خواتین، معذور افراد اور اقلیتوں کے کوٹے کی تفصیلات سے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 895ریگولر میں سے 19خواتین ملازمین ہیں۔ اقلیتوں کے 895ملازمین میں سے صرف 17ملازمین ہیں۔

کمیٹی کو معذور ملازمین کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں فراہم کرنے کی یقینی دہانی کرائی گئی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر پرنس عمر احمد زئی نے خواتین معذور افراد اور اقلیتوں کے کوٹے کا 50فیصد تین ماہ کے اندر جبکہ 100فیصد کوٹے پر عملدرآمد 6ماہ کے اندر یقینی بنانے کی ہدایت کر دی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزیر مواصلات کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر اراکین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔

کمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کو وزیر مواصلات کی کمیٹی اجلاس میں مسلسل عدم شرکت بارے آگاہ کیا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزیر مواصلات نے یقینی دہانی کروائی ہے کہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں لازمی شرکت کریں گے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مسلم آباد حویلیاں سے شاہینہ جمیل ہسپتال تک نیشنل ہائی وے 35کو کشادہ اور مرمت کے منصوبے کی پیش رفت بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ این 35کا منصوبہ 2016میں بنایا گیا تھا اس کا پی سی ون بھی بنایا گیا۔ مختلف حصوں میں منصوبے پر کام کرنا تھا 12ارب کا منصوبہ تھا۔ سی ڈی ڈبلیو پی میں منصوبہ پیش کیا گیا جس نے پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں کیا گیا اور زمین کی مالیت کے حوالے سے مسائل پیدا ہوئے۔ پہلے زمین کا زیادہ ریٹ بتایا گیا پھر بعد میں کم بتایا گیا ابھی تک فائنل نہیں ہوا۔

جس پر قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں چیف سیکرٹری کے پی کے، بورڈ آف ریونیو اور دیگر متعلقہ اداروں کے نمائندوں کو طلب کر کے این 35منصوبے کا جائزہ لیا جائے گا۔ سکردو سے جگھ لوٹ روڈ کو کشادہ اور اپ گریڈکے معاملے کا تفصیل سے قائمہ کمیٹی اجلاس میں جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ منصوبہ 2020میں مکمل ہونا تھا اٴْمید ہے نومبر 2021میں مکمل ہو جائے گا اور جلد اس کا افتتاح کر دیا جائے گا۔

گلگت سے سکردو کا سفر 9گھنٹے سے کم ہو کر 3گھنٹے کا رہ جائے گا۔ یہ 31ارب روپے کا منصوبہ تھا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر کامل علی آغا نے موٹروے پر قائم سروس ایئراز اور رسٹ ایئراز میں کھانے پینے کی اشیائ خوردونوش کی اضافی قیمتوں کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں کو نوازنے کیلئے عام عوام کو خوار کیا جا رہا ہے۔ اشیائ کی قیمتیں ڈبل وصول کی جا رہی ہیں وزارت مواصلات اور متعلقہ علاقوں کے ڈی سیز اور ایسیز ان کے خلاف اقدامات لیں۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں سیکرٹری مواصلات ایک میکنزم مرتب کر کے کمیٹی اجلاس میں پیش کریں۔ قائمہ کمیٹی نے موٹرویز پر قائم تمام سروس ایئراز اور رسٹ ایئراز کی تفصیلات باشمول ریٹ لسٹ طلب کر لی۔ اراکین کمیٹی نے موٹرویز پر کھانے پینے کی اشیائ کی اضافی قیمتوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ موٹرویز پر 20بیس برسوں سے ٹھیکیدار اجارداری قائم کر کے بیٹھے ہیں جو قانون سے ہٹ کر کام کرتے ہیں انہیں فارغ کیا جائے تا کہ لوگوں کو سستی اور معیاری اشیاء میسر ہو سکیں۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز دنیش کمار، محمد اکرم،کامل علی آغا، احمد خان، عابدہ محمد عظیم کے علاوہ سیکرٹری وزارت مواصلات، ممبرانجینئرنگ این ایچ اے، ممبر پلاننگ این ایچ اے، ممبر ایڈمن این ایچ اے اور دیگر حکام نے شرکت کی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں