قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی نے رانا شمیم کے بیان حلفی اور سابق چیف ثاقب نثار کی آڈیو لیک پر ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی

جنگ گروپ کی انتظامیہ،رانا شیم اور ثاقب نثار کو سوال نامہ بھجوایا جائے گا 5کمیٹی نے اسلام آباد پولیس سے حامد میر،ابصار عالم،اسد طور،مطیع اللہ جان اور عاصمہ شیرازی پر حملوں کی تحقیقات کی کارکردگی رپورٹ آئندہ میٹنگ میں طلب کر لی

پیر 6 دسمبر 2021 21:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 دسمبر2021ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی آڈیو لیک پر ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور اس حوالے سے جنگ گروپ کی انتظامیہ،رانا شیم اور ثاقب نثار کو سوال نامہ بھجوایا جائے گا،کمیٹی نے اسلام آباد پولیس سے حامد میر،ابصار عالم،اسد طور،مطیع اللہ جان اور عاصمہ شیرازی پر ہونے والے حملوں کی تحقیقات کی کارکردگی رپورٹ آئندہ میٹنگ میں طلب کر لی ہے،کمیٹی نے رکن اسمبلی محمد اکرم چیمہ کو پولیس حبس بے جا میں رکھنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی،کمیٹی نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور وفاقی وزیر برائے داخلہ کی کمیٹی عدم پر برہمی کا اظہار کیا،کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی میاں جاوید لطیف کی سربراہی میں پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہوا جس میں اکثریتی ممبران نے شرکت کی کمیٹی نے کہا کہ اکرم چیمہ کو کس کے کہنے پر اور کیوں حبس بے جا میں رکھا گیا اس کی رپورٹ پیش کی جائیچیئرمین کمیٹی لطیف جاوید نے کہا کہ شوکت صدیقی اور حامد خان ایڈووکیٹ نے جو باتیں کیں تھیں اگر یہ توہین عدالت ہے تو حقائق پر کون بات کرے گا کسی شخص کی وجہ سے اداروں کی بے توقیری ہو رہی ہے اگر شوکت صدیقی نے کسی ادارے میں بیٹھے شخص کی نشاندھی کی تو اس شخص کو کیوں نہیں بلایا گیا انصار عباسی نے بیان حلفی کے مطابق سٹوری دی ہے ہم اس کے ساتھ ہیں اس سے کس کو فائدا ہو گا دیکھا جائے گا کہ اداروں کو بے توقیر کون کر رہا ہے کمیٹی ایسے لوگوں کو بلائے گی اگر کمیٹی کو اہمیت نہیں دی جاتی تو ہم اس کو اسمبلی میں لیکر جائیں گے،انہوں نے کہا کہ آئی جے آئی کب بنی اور کب ضمیر جاگا تو عوام کے سامنے بات آئی انصار عباسی نے کمیٹی کو اہمیت دی اور وہ اجلاس میں آئے ہیں،انہوں نے کہا کہ اسد طور اور مطیع اللہ جان کا کیس پر کچھ نہیں ہوا دو دو سال گزر گئے ہیں اگر وفاقی دارالحکومت میں کوئی محفوظ نہیں تو پورے ملک کا کیا بنے گا وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ اسد طور کے ملزمان کو پکڑ لیں گے لیکن آج تک کچھ نہیں ہوا ،انہوں نے کہا کہ جن صحافیوں پر حملے ہوئے ہیں آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی اگر آئندہ میٹنگ میں پولیس جواب نہیں دے گی تو ہم رپورٹ بنا کر بیجھ دیں گے وفاقی وزیر ہوں نہ آئندہ میٹنگ ہو گئی انصار عباسی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بلایا جائے تو لوگ نہیں آتے جبکہ عدالت میں بھاگے جاتے ہیں پارلیمنٹ سپریم ہے چیف جسٹس کا اقرار نامہ تھا میں نے تو میسنجر کا کام کیا ہے میں نے جو کچھ کیا ہے وہ عدالت کی عزت کے لیے کیا ہے اگر میں نے غلط کیا ہے تو توہین عدالت کے لیے تیار ہوں اگر میں نے قانون توڑا ہے تو سزا بھگتنے کو تیار ہوں ہمارا کام لوگوں کو معلومات فراہم کرنا ہے شوکت صدیقی کا کیس بڑا اہم ہے جو ان کے الزامات تھے انہوں نے 12 جولائی 2018 کو تقریر کی جس کو تمام ٹی وی چینلز نے چلایا جس پر نہ حکومت اور نہ پیمرا نے اعتراض کیا احمد نورانی نے جج سے موقف لیا تو اس پر توہین عدالت ہو گئی ہم عدالت کو مطمئن کریں گے اب صورتحال ایسی بن چکی ہے کہ صحافی لوگوں تک حقائق نہیں پہنچا سکتے ، مولانا فضل الرحمان پر جو سٹوری کی اس کی کوئی حکومت تحقیقات نہیں کر سکی ، چیف جسثس شمیم نے مجھے میسیج بھیجا ہے یہ جو میرے پاس ہے مسلم لیگ ن پر ہم نے سٹوری کی کہ وہ جسٹس ثاقب نثار کو ہٹا رہے ہیں تو مجھے کہا گیا کہ یہ مجھے اسٹیبلشمنٹ نے سٹوری دی ہے ۔

(جاری ہے)

رکن کمیٹی علی نواز اعوان نے کہا کہ جو آج میڈیا کو آزادی ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی احمد نورانی کی خبر غلط ثابت ہوئی اس پر ادارے نے معافی مانگی ،انصار عباسی نے بیان حلفی پر سٹوری کی جس پر موقف لیا گیا لیکن کہا گیا کہ آواز صاف سنائی نہیں دی گئی جو بیان حلفی تالے کے اندر پڑھا ہوا ہے اس پر خبر کیسے آ گئی رانا شمیم کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بیان حلفی کسی نہیں دیا انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے حوالے سے خبر آتی ہے کہ طلاق ہو رہی ہے آزادی ذمہ داری کے ساتھ ہونی چاہیے میر شکیل الرحمن کو بلایا گیا وہ نہیں آئے،اٹارنی جنرل نے کہاتھا کہ میڈیا کے لوگ ہیں وہ تو میسینجر ہیں ان کو چھوڑ دیا جائے پی ٹی وی کے سپورٹس اینکر ڈاکٹر نعمان کی zعدم حاضری پر اس حوالے سے ایجنڈا موخر کر دیا گیا پولیس کے ڈی آئی جی محمد سلیم نے بتایا کہ ہم نے پچاس مقدمے صحافیوں کے کہنے پر 50 مقدمات کیے ہیں جن میں سے 20 مقدمات چلانے ہو چکے ہیں اور 37 ملزمان کو گرفتار کیا ہے ہمارے ایس ایس پی انویسٹیگیشن کو کرونا وائرس ہوا ہے وہ نہیں آئے ابصار عالم پر حملے کی تحقیقات میں ایک میٹر ریڈر کو گرفتار تھا ایک گولی کا خول ملا تھا اس کو فرانزک کے لیے بھی بھجوایا گیا جیو فینسنگ کا ڈیٹا نہیں ملا ،ابصار عالم نے کہا کہ مجھے تو پولیس سے کوئی امید نہیں ہے ایک پولیس والے کو اٹھا کیاگیا آئے دن ڈاکے پڑھ رہے ہیں پورے ملک میں پولیس کا جو حال کر دیا گیا ہے اس پر افسوس کیا جا سکتا ہے،کیا جن لوگوں کو سیکیورٹی دی جارہی ہے ان سے کیا پیمنٹ وصول کی جاری ہے ہماری خواہش ہے کہ پارلیمنٹ اپنا رول ادا کرے کیونکہ کمیٹی بلاتی لیکن کوئی کمیٹی میں آنے کو تیار نہیں میری سیکورٹی سے زیادہ اہم پارلیمنٹ کی عزت ہے رکن کمیٹی نفیسہ شاہ نے کہا کہ اسد طور،مطیع اللہ جان،ابصار عالم اور عاصمہ شیرازی پر حملے ہوئے ہیں ان کے حوالے سے پولیس نے کیا کیا ہے جو صحافیوں کی پروٹیکشن کے حوالے سے جو بل پاس ہوا ہے اس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنا پڑے گا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں