ہم کتاب سے دور ہو گئے ہیں، گیارہ کروڑ کا ملک تھا تب 13 سو کتاب شائع ہوتی تھی اب 22 کروڑ کے ملک میں 500 کتاب شائع ہوتی ہی:سینیٹر پرویز رشید

ہفتہ 21 مئی 2022 23:11

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 مئی2022ء) پاکستان مسلم لیگ کے راہنمائ سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ ہم کتاب سے دور ہو گئے ہیں، گیارہ کروڑ کا ملک تھا تب 13 سو کتاب شائع ہوتی تھی اب 22 کروڑ کے ملک میں 500 کتاب شائع ہوتی ہے ہم نے کتابوں سے جان چھڑا لی ہے، ہمارے نظام تعلیم نے گالی دینا نہیں سکھایا، ا?مریت کے خلاف بھی تہذیب کے ساتھ نعرے لگائے گئے۔

اقتدار ریاست میں شہریوں کا حق ہوتا ہے یہ جو ا?پ کو گالیاں نکالتے ہیں ان شہریوں کو ا?پ کو اقتدار دینا نہیں چاہئیے، گالی دینے والے کو گھنٹوں لائیو دکھایا جاتا ہے یہ وہ ہیں جن پر من و سلوی اترتا ہے اس سیبار بار حادثے ہوں گے۔

(جاری ہے)

ذہنی تبدیلی کی ضرورت ہے،معروف مصنف راجہ انور کی کتب کی این پی سی میں منعقدہ تقریب پزیرائی سے اظہار خیال کرتے ہوئے لیگی راہنمائ کا کہنا تھا کہ ہمارے نظام تعلیم میں گالی کا کلچر نہیں تھا مگرا?ج کے نظام تعلیم میں گالی عام ہو گء ہے، ہمارے دور کے نعرے تہذیب کے دائرے میں تھے ا?ج جانور اور نیوٹرل کہا جاتا ہے، حامد میر اور طلعت حسین کو ٹی وی سے ہٹا دیا جاتا ہے، نواز شریف کی تقریر پر پابندی لگا دی جاتی ہے، گالی دینے والے کو گھنٹوں لائیو دکھایا جاتا ہے یہ وہ ہیں جن پر من و سلوی اترتا ہے اقتدار ریاست میں شہریوں کا حق ہوتا ہے یہ جو ا?پ کو گالیاں نکالتے ہیں ان شہریوں کو ا?پ کو اقتدار دینا نہیں چاہئے جب تک پاکستان کے عوام کو اقتدار دیا نہیں جاتا تب تک پاکستان بار بار اس طرح کے حادثوں کا شکار ہوتے رہیں گے ، سینیٹر پرویز رشید نے مزید کہا کہ اگر ہم کتاب سے دور نہ ہوتے تو جس تبدیلی کی خواہش ہے اس کو حاصل نہ بھی کر پاتے ، ہم نے کتاب سے دوری ہی نہیں اختیار کیا اس کا حلیہ بھی بگاڑ دیا ہے، گیارہ کروڑ کا ملک تھا تب 13 سو کتاب شائع ہوتی تھی اب 22 کروڑ کے ملک میں فقط 500 کتاب شائع ہوتی ہے، ہم نے کتابوں سے جان چھڑا لی ،مرنے کے بعد کیا ہو گا کتاب کی لاکھوں کاپیاں بکی لیکن مرنے سے پہلے کیا ہو گا یہ کوئی نہیں جاننا چاہتا،اس موقع پر سینیٹر میر طاہر بزنجو کا کہنا تھا کہ راجہ امور انقلابی سوچ رکھنے والے لکھاری ہیں ا?ج کے اس دور میں یہ سوچ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتی ہے ہمارا معاشرہ پسماندگی کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ سیاست سے لے کر عدل تک ریاستی نقطہ نظر ہے،جس کسی نے بھی متبادل نظریات دینے کی کوشش کی یا رہاستی بیانیہ سے اختلاف کیا تو اس کو غدار کہا گیا، میر حاصل بزنجو سے لے کر فیض احمد فیض تک جس نے بھی جرات کی غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا گیا، ا?ج کا پاکستان 1960 یا 1970 کا پاکستان نہیں ہے، تب بائیں بازو کی جماعتیں اور یونینز مضبوط ہوتی تھیں اب دائیں بازو کی جماعتوں کا دور ہے پاکستان کا مستقبل ایک مضبوط جمہوریت سے وابسطہ ہے ،عدلیہ انتظامیہ پارلیمنٹ الیکشن کمیشن افواج اپنا پنا کام کریں کوئی بھی ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں الیکشن منصفانہ ہوں ،جب تک ملک میں سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول جے لئے عوام کی بجائے طاقتور طبقے کی طرف دیکھیں گے تو ا?ئین اور قانون کا مذاق بنتا رہے گا لکھاری کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں، کتابوں کے مصنف راجہ انور نے کہا کہ ا?ج میرا بولنے کا نہیں سننے کا دن ہے، اگر سو ا?دمی بھی تبدیلی کے معنوں کو سمجھتا ہے تو وہ دس لاکھ پہ بھاری ہے، تاریخی جلوس نکال رہے ہیں پاکستان بننے کے بعد سے ا?ج تک چہروں کی تبدیلی ا? گئی تبدیلی کوئی نہیں ا?ئی، فکری سوچ کے حامل ہزار بندے ہی پیدا کر لیں تو وہ ملک کو صحیح سمت پر لے کر جا سکتے ہیں، سابق چیف جسٹس کشمیراظہر سلیم کے کہا کہ راجہ انور نے پاکستان میں صعوبتیں جیلیں اور جلا وطنی برداشت کیں ہمیں ان کی فکری جہد سے ا?گاہ رہنے کا موقع ملا راجہ انور نے ہمیشہ سماجی انصاف کی بات کی غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بنایا جا رہا ہے، پی ایف یو جے کے سیکرٹری ناصر زیدی نے کہا کہ جب ا?مریت اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھی راجہ انور نے اس وقت بھی انقلاب کی بات کی اصولی جدوجہد کی، راجہ انور واحد دانشور تھے جنہوں نے اس وقت کے نوجوانوں کو مارکسسزم سمجھایا ،پاکستان کے واحد دانشور ہیں جنہوں نے اس وقت کے حالات کو کتابی شکل دی ہے، ایوب خان کے زمانے میں راولپنڈی میں طلبائ کی تحریک اٹھی اس تحریک میں نمایاں تھے،ٹیسٹ ٹیوب سیاستدان پیدا کرتے ہیں اور پھر ان کو اقتدار میں لاتے ہیں وہی سیاستدان پھر اس سوسائٹی کو اخلاقی اعتبات سے بھی تباہ کرتے ہیں راجہ انور کے نظریات اس سوسائٹی کے لیے ضروری ہے سوسائٹی میں تمام ادارے اہنی حد میں رہ کر کام کریں یہی بہتر ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں