یونیورسٹیاں صرف ڈگریاں عطاکرنے کے ادارے نہیں وہ قوموں کو قیادت فراہم کرتی ہیں، ہم اگر اپنی مقامی زبانوں کو تحفظ دیں گے تو ہماری ثقافت کا تحفظ ہو گا، قمر زمان کائرہ

جمعرات 30 جون 2022 17:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جون2022ء) وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ یونیورسٹیاں صرف ڈگریاں عطاکرنے کے ادارے نہیں وہ قوموں کو قیادت فراہم کرتی ہیں، ہم اگر اپنی مقامی زبانوں کو تحفظ دیں گے تو ہماری ثقافت کا تحفظ ہو گا، تاریخ میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے آپ کو ماضی سے جوڑے رکھتی ہیں اور جوڑنے کا بڑا ذریعہ یہی زبانیں ہوتی ہیں۔

وہ جمعرات کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں زبانوں کی ڈاکومنٹیشن کے حوالہ سے عالمی تربیتی ورکشاپ خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیاں صرف ڈگریاں عطاکرنے کے ادارے نہیں وہ قوموں کو قیادت فراہم کرتی ہیں،ملکوں کردرپیش چیلنجوں سے عہدہ براء ہونے کے لئےاکیڈیمیاء اور محققین قوموں کو رہنمائی دیتے ہیں،جہاں یہ عمل رک جاتا ہے یا کمزور ہوجاتا ہے ان قوموں کا حال ہمارے جیسا ہوجاتا ہے،آج بھی ہمیں علم کی طرف،علم والوں کی طرف واپس آنا ہوگا،ورنہ زندہ باد،مردہ باد کرنے والے بہت مل جائیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ زبان صرف رابطے کا ذریعہ نہیں ہے،انسان زبان میں زندہ رہتا ہے،زبان ماضی سے چوڑے رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے،زبان مستقبل سے بھی جوڑتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ طاقتور کی زبان غالب آتی ہے،غالب نظریہ طاقت کا اظہاریہ ہے،ہم نے اس خطے میں بہت سی زبانوں کے ساتھ اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کسی مذہب کی کوئی زبان نہیں،اس کو کسی مذہب سے جوڑ دینا انصاف نہیں ہے،ہندوستان کی کمال کی زبانیں تھیں، یہاں پر علم ہندسہ جیسے وہ علوم پھیلے،جو ہندوستان سے چلی اور عرب سے ہوتی ہوئی یورپ میں پہنچی اور آج جدید ریاضی الجبراءکی جو بنیاد فراہم کی جاتی ہے اس کے بہت سے عناصر کا مرکزہندوستان تھا۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں 6 ہزارسے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں،زبقنیں ہمارے کلچر کی نمائندگی کرتی ہیں،ہمیں اپنے ثقافتی کلچر کو فروغ دینا ہوگا،ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ماضی سے سیکھا ہے،ہمیں قومی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد سے متعلق اقدامات اٹھانے ہوں گے۔صرف ہارڈکور ایشوز ہی ہمارے ملک کے مسائل نہیں ہیں۔زبانیں فاصلوں کو کم کرتی ہیں۔

کائرہ نے کہا کہ یہ کام جو شروع کیا ہے اس سے بہت کچھ سیکھنے میں مدد ملے۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں بولی جانے والی 7 ہزار کے قریب زبانوں کا تین چوتھائی افریقہ میں بولی جاتی ہیں اور لگ بھگ 1400زبانیں مسائل کا شکار ہیں،ہمارے ملک کی 28 وہ زبانیں ہیں جو ختم ہورہی ہیں۔انہقں نے کہا کہ انفراسٹرکچر بڑھنےسے نقل وحمل آسان ہوجاتی اور مقامی زبانیں کمزور اور مشترکہ زبانیں مضبوط ہوتی ہیں۔

ہم ترقی کے عمل کو تو روک نہیں سکتے لیکن اپنی جو زبانیں ہیں کو محدوم ہوگئی،ہڑپہ کی زبان ختم ہوگئی۔آج بھی اگر یہ احساس پیدا ہوگیا ہے جو اچھا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اندر برداشت پیدا کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی ثقافت کو محفوظ بنائیں،تاریخ میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے آپ کو ماضی سے جوڑے رکھتی ہیں اور جوڑنے کا بڑا ذریعہ یہی زبانیں ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی روزمرہ کی ضروریات کو زیر غور لاتے ہیں اور اسی سے نمٹ رہے ہوتے ہیں،بنیادی طور پر جو قومیں اپنے ان بنایدی کور ایشوز کو بھلا دیتی ہے ایک پرانی بیماری بن جاتی ہے ہمارے معاشرے کے ساتھ آج یہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وہ سارے علوم وقوانین ہیں،دنیا میں یہی علوم ہیں۔یہی دنیا میں پڑھائے جاتے ہیں اس سے ادارے،علوم مختلف نہیں تھوڑا معیار اور برداشت کا فرق ہے،فرق یہ ہے کہ انہوں نے اپنا ماضی یاد رکھا ہوا ہے،اپنی شناخت کو جوڑا ہے۔

انہقں نے کہا کہ جموری اقدار سے سے معاشرے جمہوری بنتے ہیں،ایسا نہیں ہوسکتا جارحانہ رویوں اور اقدار میں ہم جموریت کو مکمل نافذ کرسکیں گے۔انہوں نے کہا کہ اپنی زبان میں بات کرتے ہوئےاپنائیت جلد ہوجاتی ہے،جبکہ دوسری زبان والے کے ساتھ بے تکلفی تک تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنی مقامی زبانوں کا تحفظ کریں گے تو یہی ہماری ثقافت کا تحفظ کرتی ہیں،ہماری زبانیں، ہماری ثقافت بہت مضبوط ہے،صرف ہم ان سے سبق سیکھ سکیں،حکومتوں کے پاس وقت کم ہوتا ہے انہیں اس بارے میں سمجھ کم ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہارڈ کور ایشوز ہی اصل مسائل ہیں اور انہی کے حل سے ہی تمام مسائل حل ہوں گے،یہ مسائل سیاسی ایشوز سے زیادہ اہم ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں