قتل کیس،ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم،سپریم کورٹ نے ملزم کو بری کرنے کا حکم دیدیا

سچ اور جھوٹ کی ملاوت ہوگی تو ملزمان بری ہو جائیں گے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس

بدھ 8 فروری 2017 17:46

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 فروری2017ء) سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمے میں 12 سال سے زائد عرصہ جیل میں گزارنے والے ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعد م قرار دے کر ملزم کو بری کردیا، جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دوران سماعت ریمارکس دیئے ہیںکہ جب سچ اور جھوٹ کی ملاوٹ ہو گی تو ملزمان بری ہو جائیں گے،پولیس مدعی کو خود سٹوری بنا کر دیتی ہے مدعی کو نہیں پتہ ہوتا کہ ایف آئی آر میں لکھنا کیا ہے ، لوگ جب تک سچ نہیں بولیں گے اصل ملزم کو سزا نہیں ہو سکے گی ، ہم پولیس کی ناقص تفتیش بارے کہہ کہہ کر تھک گئے ہیں ،ملزمان جب بری ہوتے ہیں تو الزام سپریم کورٹ پر لگایا جاتا ہے کہ ملزم چھوڑ دیا ،کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کیوں چھوڑ گیا ۔

کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ، مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو ملزم کے وکیل ملک محمد کبیر نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ملزم محمد افضال پر 2004میں محمد آصف نامی شخص کو قتل کرنے کا الزام لگایا ہے گیا ہے جو بلکل غلط ہے ، میرے موکل کیخلاف جھوٹی کہانی بنائی گئی ہے ، مقتول کی لاش جس گھر سے برآمد ہوئی اس گھر سے ملزم کا تعلق بھی ثابت نہیں ہو سکا ہے ، ایف آئی آر میں کہا گیا ملزم کو تیسے سے مارا گیا لیکن پوسٹمارٹم کے مطابق مدعی کے جسم پر موجود زخموں کی کا سائز کم ہے ، تیسے کا سائز چار انچ ہوتا ہے ، جبکہ پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق محمد آصف کی ہلاکت گلا دبانے سے ہوئی ،اس کیس میں جو گواہ پیش کیے گئے وہ بھی آزاد نہیں ہیں ، مدعی اور گواہوں کے درمیان رابطے ہیں اور یہ مختلف مقدمات میں ایک دوسرے کے لیے گواہی دیتے ہیں ،اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ضروری نہیں کہ ایک شخص نے زندگی میں دو واقعات دیکھیں ہوں تو وہ جھوٹا ہو جائے گا ،جبکہ ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی آر کے مطابق ملزم اور مقتول کے بچوں کے درمیان لڑائی ہوئی جس پر ملزم نے محمد آصف کو قتل کیا ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ معاملہ کچھ اور لگتا ہے ، بچوں کی لڑائی ہر اتنی بے رحمی سے کوئی کیوں مارے گا ،اگر بچوں کی لڑائی کی وجہ سے ہی مارنا ہوتا تو جھگڑا کرتا گولی مار لیتا ،بد قسمتی سے تفتیشی دیکھتے نہیں کہ مدعی نے سچ بولا ہے یا جھوٹ بس مدعی کی بات کو سچ ثابت کرنے پر سارا ذور لگاتے ہیں ، جب بچوں کی لڑائی کی وجہ سے نوبت قتل تک پہنچ گئی تھی تو مقتول ملزم کے بلانے پر اس کے ساتھ کیوں گیا ً جبکہ جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیئے کہ مقتول ویڈیو شاپ سے گیا کہیں انجوائے کرنے کے لیے ویڈیو شاپ سے کچھ لے تو نہیں گیا ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مدعی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وکیل صاحب یہ کہانی مشکوک ہے ، اس پر مدعی کے وکیل نے موقف اختیا رکیا کہ ملزم کے خون آلود کپڑے برآمد ہوئے ہیں ، جبکہ جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جب سچ اور جھوٹ کی ملاوٹ ہو گی تو ملزمان بری ہو جائیں گے،پولیس مدعی کو خود سٹوری بنا کر دیتی ہے مدعی کو نہیں پتہ ہوتا کیا لکھنا ہے ایف آئی آر میں، لوگ جب تک سچ نہیں بولیں گے اصل ملزم کو سزا نہیں ہو سکے گی اور وہ بری ہوتے رہیں گے، ہم پولیس کی ناقص تفتیش بارے کہہ کہہ کر تھک گئے ہیں ،ملزمان جب بری ہوتے ہیں تو الزام سپریم کورٹ پر لگایا جاتا ہے کہ ملزم چھوڑ دیا ،کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کیوں چھوڑ گیا، جبکہ جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیئے کہ پولیس تفتیش کو روزانہ کی بنیاد پر چیک کرنا چاہیے جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہر ضلع میں پراسیکیوشن ٹیم ہونی چاہیے جو عدالتی فیصلے کا مطالعہ کرے تاکہ غلطی کا ادراک ہو کہ کس وجہ سے ملزم بری ہوا، گواہ عدالتوں میں حلف اٹھا کر کہتے ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں کہیں گے لیکن جب کہتے ہیں تو سچ کے سوا سب کچھ کہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

یا د رہے کہ ملزم پر محمد افضال پنجاب کے ضلع جہلم کے علاقے کا لاگوجرا میں میں دس سالہ بچوں کی لڑائی کی وجہ سے محمد آصف نامی 38سالہ شخص کو قتل کرنے الراز تھا اور ملزم کیخلاف 2004میں مقدمہ درج کیا گیا تھا ،ملزم کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ ہائی کورٹ نے ملزم کی سزا کم کر کے عمر قید میں تبدیل کردی تھی جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہویئے 13سال بعد بری کردیا ہے ۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں