سندھ کی حکمرا ں جماعت قیادت متاثرین کو ریلیف دینے کے لیے مداخلت کرے، جنید ماکڈا

صدر کراچی چیمبر کا تجاوزات کے خلاف مہم کے متاثرین کی غیر متعلقہ مارکیٹوں میں منتقلی پر مایوسی کا اظہار

ہفتہ 16 فروری 2019 18:04

سندھ کی حکمرا ں جماعت قیادت متاثرین کو ریلیف دینے کے لیے مداخلت کرے، جنید ماکڈا
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 فروری2019ء) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے تجاوزات کے خلاف مہم کے متاثرین کی منتقلی کے سلسلے میں کی گئی قرعہ اندازی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میئر کراچی کی جانب کی گئی قرعہ اندازی کو مسترد کردیا جس میں دکانداروں کی اکثریت کو غیرمتعلقہ جگہوں پر منتقل کیا گیا ہے جو ان کے کاروبار کے برعکس ہیںجبکہ انہیں مہیا کی گئی جگہ ان کی پرانی گرائی گئی دکانوں کے مقابلے میں چھوٹی ہے جہاں پردکان قائم کرنے کے لئے دکانداروں کو اپنی جیب سے پیسہ لگانا پڑے گا۔

ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ کراچی چیمبرکو متاثرین مسلسل رابطہ کرکے اپنے تحفظات سے آگاہ کررہے ہیں تاہم کے سی سی آئی کے ساتھ نہ تو تجاوزات کے خلاف مہم شروع کرنے سے پہلے مشاورت کی گئی اور نہ ہی متاثرین کی منتقلی کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دینے سے قبل کوئی مشورہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تمام متاثرین میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

کے سی سی آئی کے صدر نے کہاکہ 2009 میں بولٹن مارکیٹ سانحے کے متاثرین کی بحالی کے حوالے سے کراچی چیمبر کے مثالی کردار سے ہر کوئی واقف ہے جس میں تمام متاثرین کو بروقت ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے کراچی چیمبر نے اہم کرادار ادا کیا اور تمام متاثرین کو ان کی خواہش کے مطابق مکمل معاوضہ دیا گیاجنہوں نے کے سی سی آئی کی کوششوں کو بے حد سراہا لیکن یہ بات انتہائی مایوس کن ہے کہ سندھ حکومت اور میئر کراچی نے کراچی چیمبر کے زبردست تجربے سے فائدہ اٹھانے پر غور نہیں کیا اور وہ ایک ناقابل یقین منتقلی کے منصبوبے کے ساتھ آئے جس نے غیر معمولی صورتحال پیداکردی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ایمپریس مارکیٹ کے دکانداروں کو رنچھوڑ لائن مارکیٹ ، عمر فاروق مارکیٹ کو کھڈا مارکیٹ اور شہاب الدین مارکیٹ، کہوری گارڈن مارکیٹ اور معراج مارکیٹ کو پی آئی ڈی سی فرنیچر مارکیٹ،جناح فریم مارکیٹ کو سولجر بازار مارکیٹ اور بلوچ پارک ناظم آباد نمبر 2 میں منتقل کیا گیا جبکہ ضلع جنوبی کے دیگر حصوں سے بے دخل دکانداروں کو کے ایم سی فریئر مارکیٹ میں کاروبار کے لیے متبادل جگہ فراہم کی گئی۔

کسی ایک بھی منہدم کی گئی مارکیٹ کے قریب متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی اور متاثرین کو غیر متعلقہ جگہوں پر منتقل کردیا گیا جہاں وہ اپنا کاروبار دوبارہ شروع نہیں کر پائیں گے اور ہمیں یہ ڈر ہے کہ بحالی کا یہ منصوبہ مکمل طور پر ناکام ہو جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ نام نہاد منتقلی کے منصوبے کے تحت گوشت یا سبزی کے دکاندار کو ایسی جگہ منتقل کیا گیا جہاں فرنیچر یا اسپیئر پارٹس فروخت کئے جاتے ہیں۔

ایک گوشت فروش یا سبزی فروش غیر متعلقہ جگہ پر کس طرح گاہک کو تلا ش کرے گا جہاں خریدار فرنیچر یا اسپیئر پارٹس خریدنے آتے ہیں نہ کہ گوشت یا سبزی خریدنے۔جنید ماکڈا نے کہا کہ کراچی چیمبر تجاوزات کے خلاف مہم کا مخالف نہیں لیکن بدقسمتی سے میئر کراچی نے جند عناصر کی ملی بھگت سے خودساختہ منتقلی کے منصوبے کو کراچی چیمبر اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لئے بنا ہی حتمی شکل دے دی ۔

ایک طرف ہمارے میئر وسم اختر شہری انتظامیہ پر صرف12فیصد اختیارات ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے دوسری طرف تجاوزات کے خلاف مہم میں غریب دکانداروں کے خلاف پوری قوت سے 100فیصد کارروائی کرتے ہیں جبکہ معزز عدالت عظمیٰ کے حکم کی بالکل غلط تشریح کی گئی اور اس کا غلط استعمال کیا گیا تاکہ پردے کے پیچھے چھپاجاسکے۔انہوںنے کہاکہ کراچی چیمبر کی 21سالہ مخلصانا خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاوزات کے خلاف مہم سے متاثر ہونے والے کے سی سی آئی کے زیادہ تر ممبران پُرامید ہیں کہ کراچی چیمبر ان کا مددگار بنے گا اورموجودہ حالات سے انہیںنکالے گا کیونکہ وہ مذکورہ مہم کے نتیجے میں روزانہ کی بنیادوں پر حاصل ہونے والی روزی روٹی سے محروم ہوگئے ہیں۔

انہوںنے متاثرین کو پرامن رہنے اور پریشان نہ ہونے کی درخواست کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی کہ کے سی سی آئی تمام حقیقی متاثرین کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور جب تک غریب عوام کو ریلیف نہیں مل جاتا کراچی چیمبر اعلیٰ حکام سے رجوع کرتا رہے گا۔انہوں نے کہاکہ اگرچہ مختلف مارکیٹوں کی ہزاروں دکانوں کا صفایا کردیا گیا لیکن میئر کراچی نے محض 1443دکانوں کی منظوری دی اور ساتھ ہی یہ جھوٹا دعویٰ بھی کردیا کہ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔

انہوں نے سندھ حکومت کی حکمراں جماعت کی قیادت سے کہاکہ وہ اس ناانصافی کا نوٹس لیں اور کراچی چیمبر کے ساتھ مشاورت سے متاثرین کی مناسب جگہ پر منتقلی کے لیے ازسرنو حکمت عملی وضع کریں جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول ہو۔موجودہ صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ ایماندار ٹیکس گزاروں کی سندھ میں کوئی قدر نہیں جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بروقت ٹیکسوں کی مد میں خطیر رقم کی ادائیگیوں کی حقیقت کے باوجود مشکلات سے دوچار ہیں۔کراچی کی تاجروصنعتکار برادری قومی خزانے میں65فیصد سے زائد ریونیو جمع کرواتی ہے جبکہ سندھ میں 95فیصد ریونیو کراچی سے حاصل ہوتا ہے پھر بھی ہم بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور ہر قسم کی ناانصافیوں کا سامنا کررہے ہیں۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں