پیٹرولیم، بینکنگ سمیت دس بڑے سیکٹرز سے کمی کے باعث رواں مالی سال ٹیکس ہدف کا حصول ممکن نہیں ہے، میاں زاہد حسین

ٹیکس نیٹ میں اضافہ کے لئے اسمال اور مائیکرو سیکٹر کے لئے مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ نئی ٹیکس اتھارٹی بنائی جائے، ٹیکس دہندگان کے ساتھ ناروا سلوک سے بزنس کمیونٹی کو پریشانی کا سامنا ہے جس کا ازالہ کیا جائے

بدھ 20 مارچ 2019 16:41

پیٹرولیم، بینکنگ سمیت دس بڑے سیکٹرز سے کمی کے باعث رواں مالی سال ٹیکس ہدف کا حصول ممکن نہیں ہے، میاں زاہد حسین
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 مارچ2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹر یل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل ایف پی سی سی آئی کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ایف بی آر کی طرف سے 2018کے ٹیکس ریٹرن میں 31مارچ 2019تک توسیع کرنا خوش آئند ہے ۔تاہم ٹیکس دہندگان کو بے جا ہراساں کرنا کسی بھی طرح محصولات کی وصولی میں اضافہ کے لئے کارآمد نہیں ہے۔

ٹیکس دہندگان کو ہر طرح سے آسانیاں فراہم کی جائیں اور ٹیکس کی وصولی اور ادائیگی کو آسان اور باوقار بنایا جائے۔ محصولات میں اضافہ کے لئے ٹیکس بیس کو بڑھایا جائے اور ٹیکس دہندگان کے وقا ر اور عزت کا خیال رکھا جائے۔میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ٹیکس پیئرز جو وقت پر اپنے ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں کو ہراساں کرنے سے گریز کیا جائے اور ایسی کا لیں بھیٹریں جو ٹیکس پیئرز کو پریشان کرتی ہیں ان کے خلا ف سخت کاروائی کی جائے ۔

(جاری ہے)

اسمال اور مائیکرو سیکٹرز کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لا یا جائے اور خوف کی فضا کا خا تمہ کیا جائے ۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں ٹیکس کے حصول میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جو صرف بزنس کمیونٹی کے تعاون سے ہی ممکن ہوا ہے۔ ٹیکس دہندگان کے ساتھ ناروا سلوک سے بزنس کمیونٹی کو پریشانی کا سامنا ہے جس کا ازالہ کیا جائے۔ رواں مالی سال میں ٹیکس کی وصولی کا ہدف 4.4کھرب روپے تھا جس میں اب تک لگ بھگ 2کھرب روپے کی وصولی ہوئی ہے تاہم رواں مالی سال میں ٹیکس کے ہدف کا حصول ناممکن حد تک مشکل ہے جبکہ اسلام آبا د میں ٹیکس کے حصول کے آسان نظام کانفاذ ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران دس بڑے سیکٹر بشمول ٹیلی کام، پیٹرولیم، سروسز، اسٹاک ایکسچینج، بینکنگ، آٹو موبائیل، فوڈ پروڈکٹس اور کسٹم ڈیوٹی میں کمی وغیرہ سے ٹیکس کے حصول میں 191ارب روپے کا نقصان ہوا ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ اس دوران بینکوں کے منافع میں 10فیصد کمی ہوئی جس سے محصولات کی ادائیگیوں میں تقریباً2ارب روپے کا نقصان ہوااور غیر مستحکم معاشی حالات کے باعث اسٹاک مارکیٹ متزلزل رہی جس سے ٹیکس کی وصولی میں 5ارب کے لگ بھگ نقصان ہوا۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ ٹیکس سسٹم میں ریفارمز کے لئے عملی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ایف بی آر کے قوانین بڑے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لئے قدرے موزوں ہیں لیکن چھوٹے درجے کے کاروبارکی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے چھوٹے تاجروں کی اکثریت ٹیکس نیٹ میں آنے سے کتراتی ہے جبکہ چھوٹے تاجر خیرات اور صدقات میں سب سے آگے ہیں۔

ٹیکس ایمنسٹی اسکیم اور بینک ٹرانزیکشن پر ٹیکس تاجر برادری میں مقبول نہیں ہوسکے کیونکہ موجودہ ٹیکس قوانین انکی کاروباری ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔اسمال اور مائیکرو سیکٹر کے لئے نئی ٹیکس اتھارٹی بنائی جائے جو مارکیٹ کے تقاضوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوں۔اس سے حکومت کو ملنے والے ریوینیو میں سو فیصد اضافہ ممکن ہوجائے گا اور ملک کسی کا محتاج نہیں رہے گا۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں