ناکام سرکاری ادارے ملکی جی ڈی پی کا دو فیصد ہڑپ کر جاتے ہیں:میاں زاہد حسین

سرکاری کمپنیوں کی فروخت سے خسارے میں کمی کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے، عوام کے بجائے متمول طبقہ، عام ملازمین کے بجائے بھاری تنخواہیں لینے والوں کو ہدف بنایا جائے

پیر 27 مئی 2019 17:21

ناکام سرکاری ادارے ملکی جی ڈی پی کا دو فیصد ہڑپ کر جاتے ہیں:میاں زاہد حسین
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 27 مئی2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق خسارہ کم کرنے اور آمدنی بڑھانے کے لئے عوام کے بجائے ٹیکس ادا نہ کرنے والے متمول طبقات کو ہدف بنایا جائے۔

آمدہ بجٹ میں ایس ایم ایز پر ٹیکس کم کیا جائے، زراعت ریٹیل سیکٹر اورپروفیشنلز کوٹیکس نیٹ میں لایا جائے اورعام تنخواہ دار طبقہ کے بجائے لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والوں پر ٹیکس بڑھایا جائے۔سخت فیصلے کر کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب جو دس فیصد ہے کو اٹھارہ فیصد تک بڑھانا ضروری ہے۔میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ناکام سرکاری ادارے جی ڈی پی کا دو فیصد یا900ارب روپے ہڑپ کر جاتے ہیں جنھیں فوری طور پر فروخت کیا جائے۔

(جاری ہے)

ہوا بازی کی مقامی صنعت کوترقی دینے کے لئے زیروٹیکس کی تجویز مسترد کر دی جائے کیونکہ اس سے محاصل کی مد میں دس ارب روپے سالانہ نقصان ہو گا جبکہ پی آئی اے جو چار سو ارب کا نقصان کر چکی ہے نقصان میں ہی رہے گی۔موجودہ حکومت بھی پی آئی اے کی بحالی کی امید پر بائیس ارب روپے ضائع کر چکی ہے مگر صورتحال میں قابل ذکر بہتری نہیں آئی ہے۔سٹیل مل بھی ماہانہ دو ارب روپے کا نقصان کر رہی ہے اور اسکے مجموعی نقصانات کئی سو ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جبکہ ریلوے بھی ساڑھے تین ارب روپے ماہانہ کا نقصان کر رہی ہے۔

موجودہ حکومت ناکام کمپنیوں کو مصنوعی طورپر زندہ رکھنے کے جرم میں شریک نہ ہوکیونکہ اس کی قیمت سیاستدان نہیں بلکہ غریب عوام ادا کر رہے ہیں۔صرف ان کمپنیوں کو فروخت کرنے سے آئی ایم ایف کا دیا ہوا خسارہ کم کرنے کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ملک کی اقتصادی صورتحال اور روپے کی قدر بہتر ہو رہی ہے جسکی وجہ عید کی وجہ سے ترسیلات میں اضافہ، آئی ایم ایف کی نگرانی اور مرکزی بینک کے گورنر کا مختلف مافیاؤں کے مطالبات پر کان نہ دھرنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ امریکہ اور چین کے مابین تجارتی محاز آرائی کی وجہ سے بہت سی چینی کمپنیاں دیگر ممالک منتقل ہونے کے لئے پر تول رہی ہیں جو پاکستان کے لئے سنہری موقع ہے۔ ان کمپنیوں کو پاکستان منتقل ہونے پر آمادہ کیا جائے۔ آئی ایم ایف کا پیکج صرف چھ ارب ڈالر کا ہے مگر اس سے ترقیاتی بینکوں اور بانڈ مارکیٹ سے سستے قرضے لینے میں سہولت ہو گی کیونکہ آئی ایم ایف کی نگرانی کے بغیر عالمی ادارے کسی ملک سے آسانی سے معاملات طے نہیں کرتے۔

ملکی آمدنی میں اضافہ کے لئے عوام کو ہدف نہ بنایا جائے بلکہ ان سے ریکوری کی جائے جو اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ملک کی اقتصادی حالت اس وقت شدید کمزور ہے مگرمسئلہ اقتصادی نہیں بلکہ تجارتی ہے اسلئے ایکسپورٹ میں کم از کم 10ارب ڈالر کا اضافہ کرنے کی طرف توجہ دی جائے جوکہ صرف ایکسچینج ریٹ کے ذریعے ممکن نہیں دیگر عوامل بھی نہا یت ضروری ہیں۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں