ایف بی آر ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو تیز رفتار ریفنڈز کی ادائیگی کے دعوے میں ناکام نظر آتی ہے،محمد جاوید بلوانی

پیر 14 اکتوبر 2019 20:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 اکتوبر2019ء) فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کا ایکسپورٹرز کے لئے سیلز ٹیکس ریفنڈز کے کلیمز کی ادائیگی کی خاطر بنایا گئے فُلی آٹومیٹیڈ سیلز ٹیکس ای ریفنڈ(فاسٹر) سسٹم کی سست کارکردگی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے لئے باعث تشویش ہے۔ مزکورہ سسٹم کو فاسٹر کے بجائے سلوور کہنا درست ہو گا کیونکہ ایف بی آر ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو تیز رفتار ریفنڈز کی ادائیگی کے دعوے میں ناکام نظر آتی ہے۔

ماضی میں پانچ زیرو ریٹیڈ ایکسپورٹ سیکٹرز کیلئے سابقہ حکومتوں نے سیلز ٹیکس صفر رکھا تھاجبکہ موجودہ حکومت نے 17فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ کر دیا اور ایکسپورٹرز کو یقین دھانی کرائی کہ حکومت کی نئی پالیسی اور سیلز ٹیکس قوانین میں ترامیم او ر ایف بی آر کے نئے فاسٹر سسٹم کے تحت ایکسپورٹرزکو ان کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کلیمز داخل کرنے کے 72گھنٹوں میںادائیگیاں کر دی جائیں گی مگر کئی سو گھنٹے گزر جانے کے باوجود ایکسپورٹرز کوادائیگیاں نہیں کی گئیں اور حکومتی وعدے اوردعوے بے معنی اورزبانی جمع خرچ دکھائی دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار محمد جاوید بلوانی، چیئرمین ، پاکستان اپیرئل فورم، چودھری سلامت علی، سینٹر ل چیئرمین ، اسلم احمد کارساز، چیئرمین سائودرن زون اور میاں نعیم احمدچیئرمین ناردرن زون پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے اپنے مشترکہ بیان میں کیا۔انھوں نے بتایا کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے منظور شدہ ریفنڈ پے منٹ آرڈرز کے تحت سیلز ٹیکس ریفنڈز کلیمز کی ادائیگی میں تاخیر کے حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے رابطہ کیا گیا تو جواب ملا کہ جب تک فیڈرل بورڈ آف ریوینیو تحریری طور پر منظوری نہ دے ایکسپورٹرز کو ان کے ریفنڈ کلیمز کریڈیٹ نہیں کر سکتے۔

انھوں نے کہا کہ ایکسپورٹرز حیران ہیں کہ ایک طرف حکومت ایکسپورٹرز کو سیلز ٹیکس ریفنڈز کی تیز رفتار ادائیگی کیلئے فاسٹر سسٹم متعارف کرانی کی بات کر رہی ہے اور دوسری طرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایکسپورٹرز کی منظورشدہ ریفنڈ پے منٹ آرڈرز کے تحت ادائیگیوں کے احکامات نہیں دے رہی سیلزٹیکس ریفنڈز کی بروقت ادائیگیاں نہ ہونے کے باعث وہ مالی دبائو اور مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں اور میٹرئیل کی خریداری میں مشکلات پیش آ رہی ہے۔

اگر اسی طرح سیلز ٹیکس ریفنڈز حکومت کے پاس پھنس گئے تو پروڈکشن شدید متاثر ہو گی اور ایکسپورٹ آرڈرز کینسل ہونے کا صنعتیں بند ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ علاوہ ازیں ایس آر او 747(I)/2019مورخہ 9جولائی 2019کے تحت ایکسپورٹ اوورینٹیڈ یونٹس اور ایس ایم ای انٹرپرائزز رولز2008میں ترامیم کی گئیں ہیںجس کے رول 10سب رول1کی شق بی اور سی کو حذف کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے آئندہ ایکسپورٹرز لوکل ان پٹ گڈز زیروریٹیڈ سیلز ٹیکس انوائس پر حاصل نہیں کر سکیں گے جو کہ ترامیم سے قبل ایکسپورٹرز کو مل رہی تھی۔

انھوں حکومت کو خبردار کیا کہ ایکسپورٹرز کو سیلز ٹیکس ریفنڈز میں ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے شدید بے چینی اور غیریقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیںاگر ایف بی آر نے نئے فاسٹر سسٹم کے تحت فوری ادائیگیاں یقینی نہ بنائیں تو ریفنڈز میں تاخیر کی وجہ سے میٹرئل نہ خرید پائیں گے جس سے پروڈکشن متاثر ہو گی اور لامحالہ ایک اندازے کے مطابق رواں مالی سال میں15فیصد ایکپسورٹ میں کمی کا باعث بنے گی۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اپنا وعدہ پورا کرے اور ایف بی آرنئے خودکار فُلی آٹومیٹیڈ سیلز ٹیکس ای ریفنڈ(فاسٹر) سسٹم کے تحت سیلز ٹیکس کلیمز جمع کروانے کے 72گھنٹوں میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کے کلیمز کی فوری ادائیگیاں یقینی بنائی جائے بصورت دیگر ماضی کا زیرو ریٹیڈ سیلز ٹیکس نو پے منٹ نو ریفنڈ کا نظام بحال کرے۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں