کاٹن کے کاشتکاروں کے مسائل حل نہ ہوئے تو یہ شعبہ مزید کمزور ہو جائے گا،میاں زاہدحسین

درآمدات پر انحصار ٹیکسٹائل کی صنعت کو اخراجات کے بوجھ تلے دبا دے گا،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

بدھ 16 اکتوبر 2019 19:07

کاٹن کے کاشتکاروں کے مسائل حل نہ ہوئے تو یہ شعبہ مزید کمزور ہو جائے گا،میاں زاہدحسین
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کپاس کی فصل کا ہدف مقرر کرنا کافی نہیں بلکہ پیداوار کے لئے مناسب اقدامات بھی ضروری ہیں۔کپاس کے کاشتکاروں کے مسائل حل کئے جائیں تاکہ وہ دیگر فصلوں کی طرف راغب نہ ہوں اور اسکی زیر کاشت رقبے میں کمی کا رجحان روکا جا سکے ورنہ ٹیکسٹائل کی صنعت اضافی اخراجات کے بوجھ تلے دب جائے گی۔

میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ رواں سال فصل کی تباہی کی وجہ سے کم از کم 50لاکھ گانٹھ کپاس درآمد کرنا ہو گی جس سے امپورٹ بل اور پیداواری لاگت بڑھ جائے گی اور اسکے نتیجہ میں ٹیکسٹائل کے شعبہ کی مسابقت اور برآمدات متاثر ہو نگی۔

(جاری ہے)

زرعی جی ڈی پی میں کپاس کا حصہ 4.5 فیصد ہے جبکہ قومی جی ڈی پی میں ایک فیصد ہے جبکہ ٹیکسٹائل کی صنعت کی پیداواری لاگت میں اس کا حصہ70 فیصد ہے۔

امسال کپاس کی بوائی کے رقبہ میں کمی کیڑوں کے حملوں، غیر معیاری بیجوں، جعلی زرعی ادویات ،پانی کی کمی اورکم منافع کی وجہ سے اسکی پیداوار میں 33فیصد کمی آئی گی جس سے جی ڈی پی میں 2 فیصد کمی آئے گی۔انھوں نے کہا کہ غیر معیاری بیجوں کی وجہ سے گلابی کیڑا اور سفید مکھی 40لاکھ گانٹھ کپاس کو ضائع کر دیتے ہیںجس کا تدارک کیا جائے ۔ٹیکسٹائل کی صنعت 13 ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ کما رہی ہے جبکہ ایک کروڑ سے زیادہ افراد کوروزگار کا موقع فراہم کر رہی ہے اس لئے کپاس کے شعبے کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

2012 سے اب تک کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں 29 فیصد کمی آ چکی ہے جبکہ کپاس کی پیداوار میں نمایاں حیثیت رکھنے والے دس ممالک اس دوران اپنی فی ایکڑ پیداوار مسلسل بڑھا رہے ہیں۔امسال بھارت کی پیداوار تین کروڑ گانٹھ جبکہ پاکستان کی ایک کروڑ گانٹھ تک ہو گی۔بھارت کپاس کی پیداوار اور را کاٹن ایکسپورٹ میں پاکستان سے کہیں آگے ہے ۔ بھارت اور پاکستان کے موسم یکساں ہیںجبکہ مناسب درجہ حرارت اور جد ید مشینری کا استعمال کاٹن کی پیداواربڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔

کاشتکاروں سے کپاس 90روپے کلو خرید کرٹیکسٹائل ملز کو230 روپے کلو فروخت کی جا رہی ہے جو کسان اور ملزدونوں کیلئے نقصان کا باعث بنتی ہے کیونکہ مڈل مین منافع کے نام پر استحصال کر رہے ہیںجس کا نوٹس لے کر سخت کاروائی کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی میںفوری اصلاحات متعارف کروانے اور اسے فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنے فرائض بہتر طریقے سے ادا کر سکیں۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں