امریکی اقدامات اور کاروباری لاگت چینی کمپنیوں کو دیگر ممالک منتقل کر رہی ہیں: میاں زاہد حسین

سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کے نعروں کی بجائے عملی اقدا مات کئے جائیں، صرف سستی لیبرکے ذریعے چینی سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ناممکن ہے

پیر 13 جولائی 2020 19:40

امریکی اقدامات اور کاروباری لاگت چینی کمپنیوں کو دیگر ممالک منتقل کر رہی ہیں: میاں زاہد حسین
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 جولائی2020ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ، ایف پی سی سی آئی میں بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئرمین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ امریکہ اوریورپ کے چین پر کم انحصار کرنے کے فیصلے، بڑھتے ہوئے کاروباری اخراجات، امریکہ اور چین کے مابین مسلسل کشیدگی، چینی مصنوعات پر اضافی محصولات اور کرونا وائرس کی وجہ سے متعدد چینی کمپنیاں دیگر ممالک منتقل ہورہی ہیں۔

اس صورتحال میں ساری دنیا چین سے نقل مکانی کرنے والی کمپنیوں کو اپنی جانب مائل اور متوجہ کرنے میں مصروف ہے مگر ہمارے پالیسی ساز سو رہے ہیں۔میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ چین ہمارا دیرینہ دوست اور پڑوسی ملک ہے مگر اس وقت تک کسی ایک چینی کمپنی نے بھی پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا ہے کیونکہ سرمایہ کاراولین ترجیح کاروباری ماحول کو دیتے ہیں جس میں ہم دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔

(جاری ہے)

صرف سستی لیبر کے ذریعے سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ناممکن ہے کیونکہ پاکستان سیاسی عدم استحکام، بنیادی پالیسیوں میں اچانک غیر متوقع تبدیلی، مناسب انفراسٹرکچر کی غیر موجودگی، سڑکوں اور ریلوے کی حالت زار، مشکل ترین ٹیکس نظام، معاہدوں پر عمل درآمد اور کاروباری تنازعات کے حل کے کمزور نظام اور بیوروکریسی کی سست روی کا شکار ہے جبکہ کاروباری مافیا کے کارناموں نے بھی ملکی ساکھ داؤ پر لگا رکھی ہے جو سرمایہ کاروں کے لئے ناقابل قبول ہے۔

اپریل 2018 سے اگست2019 تک 56 کمپنیوں نے چین سے نقل مکانی کی جس میں سے 26 ویتنام،11 تائیوان،8 تھائی لینڈ، 5 جاپان اور4 کمبوڈیا منتقل ہو گئیں جبکہ اس وقت بعض کمپنیاں میکسیکو اور مراکش کی جانب منتقل ہونے کے عمل سے گزر رہی ہیں مگر کوئی کمپنی پڑوسی ملک پاکستان کی جانب دیکھنے کی زحمت گوارا کرنے کو تیار نہیں۔نقل مکانی مہنگا عمل ہے اس لئے امریکہ سمیت کئی ممالک منتقل ہونے والی کمپنیوں کو اخراجات ادا کرنے کا سوچ رہے ہیں جبکہ جاپان اس سلسلے میں ترغیبات کا اعلان بھی کر چکا ہے۔

چین میں کام کرنے والی سات بڑی کمپنیاں جن میں پیناسونک اور ایل جی بھی شامل ہیں انڈونیشیا منتقل ہو رہی ہیں جس سے وہاں30 ہزار نوکریاں پیدا ہونگی ۔ بھارت نے بھی موبائل فون اور کنزیومر مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کو راغب کرنے کے لئے 6 ارب ڈالر سے زیادہ کی ترغیبات کا اعلان کر دیا ہے مگر ہم صرف پاک چین دوستی کے ترانے گانے میں مصروف ہیں۔سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی پا ک چین دوستی کے نعروں کی بجائے عملی اقدا مات کر کے چین کی سن سیٹ انڈسٹری اور انویسٹمنٹ کو پاکستان لا نے کیلئے پاکستان میں کاروباری سہولیات کے انڈیکس کو بنگلہ دیش ، بھارت اور سری لنکا سے بہتر بنانا ہوگا ۔

پاکستان میں صنعتی ترقی اور روزگار کی فرا ہمی کیلئے جتنی جلدی تاجروں و صنعتکاروں سے سوتیلی ماں کا سلوک ختم کر دیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں