ہوزری ایسوسی ایشن نے ٹیکسٹائل پالیسی 2020-25 اورنئی اسٹریٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک کیلئے تجاویز ارسال کردیں

ہفتہ 8 اگست 2020 00:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 اگست2020ء) پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے وزارت تجارت، ٹیکسٹائل ڈویژن اور ٹریڈ ڈولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کو ٹیکسٹائل پالیسی 2020-25 اورنئی اسٹریٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک کیلئے تجاویز ارسال کردیں جس میں مختلف ایکشن میٹرکس اور آئندہ پانچ سالوں کیلئے ایکسپورٹ پرو جیکشن پر ایسوسی ایشن سے تجاویز طلب کی گئی تھیں۔

پی ایچ ایم اے کے آفس بیئرئرز اور وزارت تجارت اور ٹی ڈی اے پی کے مابین آن لائن میٹنگ میں محمد جاوید بلوانی ، چیف کوآرڈینیٹر و سابق چیئرمین پی ایچ ایم اے نے تجاویز پیش کیں۔ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو خطے میں مسابقت کی خاطر پی ایچ ایم اے نے تجویز دی کہ ٹیکسٹائل کی مکمل چین کو 7.5سینٹ فی کلو واٹ بشمول تمام اور آر ایل این جی 6.5ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے خصوصی ٹیریفس کو جاری رکھا جائے۔

(جاری ہے)

یوٹیلیٹیز کے نرخوں کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے اور خطے کے ممالک میں یوٹیلیٹی ٹیریف میں کمی کی صورت میں پاکستان میں بھی ٹیریف کم کرتے ہوئے برابر کی سطح پر لایا جایا تاکہ ایکسپورٹرز بہتر مسابقت کر سکیں۔ اسی طرح عالمی منڈی میں آر ایل این جی کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں پاکستان میں بھی نرخوں میں کمی کی جائے۔ڈیوٹی ڈرابیک آن لوکل ٹیکسس اینڈ لیویز پر تبصرہ کرتے ہوئے جاوید بلوانی نے بتایا کہ مزکورہ اسکیم ایکسپورٹرز کے مطالبہ پر حکومت نے جاری کی تاکہ لوکل ٹیکسس و لیویز کی مد میں ایکسپورٹرز نے جو ادائیگیاں کی انھیں واپس کی جائیں کیونکہ ایکسپورٹ کی جانے والی مصنوعات پر ٹیکس نہیں ہوتا۔

ڈی ایل ٹی ایل یا ڈی ڈی ٹی حقیقت میں حکومت کی طرف سے کو ترغیب نہیں بلکہ وہ رقم ہے جو حکومت لوکل ٹیکسس و لیویز کی مد میں وصول کرتی ہے جو ایکسپورٹرز کو بعد ازاں لوٹا دی جاتی ہے۔اپی ایچ ایم اے نے تجویز دی کہ ڈیوٹی ڈرابیک آن ٹیکسس و لیویز گارمنٹس کیلئی7فیصد، ہوم ٹیکسٹائل کیلئی6فیصد اور فیبرک ایکسپورٹ کیلئی5فیصد وزارت کے 23جنوری 2017کے نوٹیفکیشن کے مطابق جاری کی جائے۔

مالی سال میں ایکسپورٹر کو 10فیصد ایکسپورٹ بڑھانے کی صورت میں2فیصد اضافی دیا جائے۔ اسی طرح غیر روایتی منڈیوں میں ایکسپورٹ کرنے کی صورت میں ایکسپورٹر کو مزید 2فیصد ڈرابیک دیا جائے۔ ڈیوٹی ڈرابیک کی ادائیگی کا نظام مکمل طور پر خود کار ہونا چاہیئے اور ایکسپورٹ پروسیڈز آنے کی بعد ایکسپورٹرز کو ڈرابیک کیلئے اپلائی نہ کرنا پڑے بلکہ خودکار نظام کے تحت الیکرونکلی ایکسپورٹر کو ادا کر دیا جائے اور کسی بھی قسم کی انسانی مداخلت نہ ہو۔

اس نظام کے تحت ایکسپورٹرز کے کلیمز ٹائم بارڈ بھی نہ ہوں گے۔کاروبار میں آسانی کیلئے ایکسپورٹرز اور ان ڈائریکٹ ایکسپورٹرز کی سہولت کیلئی مشینری کی خرید اور بیلنسنگ، ماڈرن آئیزیشن اور ری پلیسمنٹ کیلئے لانگ ٹرم فنانسنگ فیسیلٹی جو جاری رکھا جائے، ایکسپورٹ فنانسنگ اسکیم کو بھی جاری رکھا جائے ۔ ان اسکیمزکو اپلائی کرنے والے ایکسپورٹرز کو حکومت ڈسکائونٹ دیتی ہے۔

اگر کوئی ایکسپورٹر مزکورہ سہولت حاصل نہ کرنا چاہے تو حکومت جو سہولت اسکیم کو اپلائی کرنے والے ایکسپورٹرز کو دیتی ہے گرانٹ کی صورت میں ان ایکسپورٹرز کو ان کی ایکسپورٹ ویلیو کے مطابق بھی دے جو اسکیمزکیلئے اپلائی نہیں کرتے۔عمومی طور پر ان اسکیمز کوترجیحاً بڑے ایکسپورٹرز اپلائی کرتے ہیں اور چھوٹے ایکسپورٹرز پیچیدگی کے باعث اپلائی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

چھوٹے ایکسپورٹرز کو ایسی اسکیمز کا فائدہ ضرور ملنا چاہئے تاکہ ان کا کاروبار بڑھ سکے، کیونکہ کل کا چھوٹا ایکسپورٹرآج کا درمیانہ ایکسپورٹر ہے جو آنے والے کل بڑا ایکسپورٹر بنے گا۔پی ایچ ایم اے نے مزید تجویز دی کہ عارضی امپورٹ اسکیمز کو آسان بنایا جائے اور ان اسکیم کیلئے اپلائی کرنا اور عمل درآمد خودکار طریقے سے ہونا چاہئے جسے ایکسپورٹرز ٹیکسٹائل ڈویژن کے آرڈی اے سیل کے تحت اپلائی کریں جس کی منظوری 24تا48گھنٹوں میں دے دی جائے۔

اسی طرح ٹیکسٹائل ویلیو چین کی ٹیریف ریشنلائزیشن اور کسٹمز ڈیوٹی ڈرابیک کے ریٹ کسٹمز اتھارٹی وزارت تجارت اور ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کی مشاورت سے نظر ثانی کی جائے اور کسٹمز ریبیٹ ایکسپورٹ پروسیڈز کے آنے کے ساتھ ایکسپورٹرز کو الیکڑونکلی ادا کر دی جائے۔ٹیکسٹائل ویلیو چین کیلئے زیرو ریٹنگ کی بحالی ، ٹیکسٹائل مشینری اور پارٹس کی امپورٹ زیرو ریٹ پر بغیر ڈیوٹی و ٹیکس کے ہونی چاہئے۔

بیمار یونٹس کی بحالی کی خاطر انھیں ان ایکسپورٹرز کو سونپ دیا جائے جو ترقی کر رہے ہیں تاکہ ان بیمار یونٹس کو وہ اپنے تجربہ سے بحال کر سکیں۔ایکسپورٹ ڈولپمنٹ فنڈ کا خاتمہ کرکے امپورٹ سبسٹی ٹیوشن فنڈ قائم کیا جائے جس میں لگژری آئیٹمزکی امپورٹ پر 1فیصد چارجز لئے جائیں جبکہ خام و صنعتی مال کی امپورٹ پر فنڈ نہ لیا جائے۔پاکستان ٹیکسٹائل سٹی، کراچی گارمنٹس سٹی کی احیاہ کی خاطر مکمل منصوبہ بندی کی جائے جس میں تکمیل کے تمام مراحل کی متوقع تاریخ درج ہوں جس میں منصوبے مرحلہ وار لازمی مکمل ہو جائیں۔

انڈسٹرئیل کمپلیکس و عمارات ایکسپورٹرز کو مارکیٹ سے 50فیصد کم کرائے پر ایسے ایکسپورٹرز کو دی جائیں جو ہر سال اپنی ایکسپورٹ 10فیصد یا اس سے زائد بڑھا رہے ہیں اور ساتھ شرط عائد کی جائے کہ اپنی ایکسپورٹ کارکردگی سالانہ بنیادوں پر بڑھاتے جائیں۔لاہور اور فیصل آباد گارمنٹس سٹیز کے حوالے سے تجویز دی کہ نئے گارمنٹس سٹیز کے قیام سے قبل پہلے سے قائم تمام ایکسپورٹ سٹیز میں انفرااسٹرکچر اور تمام مطلوبہ سہولیات میسر کی جائیں۔

کراچی میں قائم پرانے صنعتی زونز میں آج تک مکمل انفرااسٹرکچر اور سہولیات، کمبائنڈ ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس ، فائرکنڑول سسٹم، بلاتعطل بجلی اور گیس اور دیگر سہولیات دستیاب نہیں۔نٹ ویئرسیکٹر کی آئندہ پانچ سال کی ایکسپورٹ پروجیکشن پر رائے دی اگر حکومت تمام سہولیات یقینی بنائے تو نٹ ویئر کی ایکسپورٹ 2019-20میں 2.79بلین ڈالرز سے بڑھ کر2024-25میں 3.56بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں