ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی محتاط خریداری کے باعث کاروباری حجم کم رہا

صوبہ سندھ میں روئی کا بھاؤ فی من 8600 تا 10000 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 4700 تا 5100 روپے رہا

ہفتہ 31 اکتوبر 2020 17:56

ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی محتاط خریداری کے باعث کاروباری حجم کم رہا
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 اکتوبر2020ء) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی محتاط خریداری اور جنرز پھٹی کے دام اونچے ہونے کے سبب اور کاروبار بے وارہ ہونے کی وجہ سے زیادہ روئی بیچنے سے اجتناب برت رہے ہیں جس کے باعث کاروباری حجم نسبتا کم ہورہا ہے دوسری جانب بین الاقوامی طور پر کئی ممالک میں کورونا دوبارہ سر اٹھا رہا ہے ٹیکسٹائل ملز کی روئی کی زیادہ خریداری سے محتاط ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اگر دوبارہ امریکہ اور یوروپ میں لاک ڈاؤن ہوجائے گا تو کاروبار پر اسکا منفی اثر پڑے گا خصوصی طور پر ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد مشکل ہوجائے گی دوسری جانب بیرون ممالک سے درآمد ہونے والی روئی کی ڈیلیوری بھی متاثر ہوگی ملوں کے کئی بڑے گروپ بھی روئی کے زیادہ درآمدی معاہدے کرنے سے اجتناب کررہے ہیں کیوں کہ مستقبل غیر یقینی ہے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مسلسل تنزلی ہورہی ہے جو گزشتہ دنوں تقریبا 6 روپے کم ہوگیا ہے 160 روپے کے لگ بھگ رہا یہ کم ہوکر 155 روپے کی نیچی سطح پر آنے کی توقع بتائی جاتی ہے۔ ڈالر کی قیمت کم ہونے سے روئی کی درآمد پر مثبت جبکہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد پر منفی اثر پڑے گا۔ بہر حال COVID-19 کی وجہ سے فی الحال کاروباری حجم کم رہے گا۔

بدھ کے روز سے COVID-19 کے بڑھنے کی خبریں گردش کرنے کی وجہ سے دنیا بھر کی کموڈیٹی مارکیٹوں میں مندا آنا شروع ہوگیا ہے۔ آئندہ بھی غیر یقینی صورت حال رہنے کا خدشہ ہے۔بہر حال ہفتہ کے دوران اتار چڑھا کے بعد روئی کے بھاؤ میں مجموعی طورپر 100 تا 300 روپے تک مندی دیکھی گئی۔ صوبہ سندھ میں روئی کا بھاؤ فی من 8600 تا 10000 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 4700 تا 5100 روپے رہا صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 9800 تا 10200 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 4700 تا 5300 روپے رہا صوبہ بلوچستان میں روئی کا بھا ؤفی من 9600 تا 9800 روپے رہا جبکہ پھٹی کا بھا ؤفی 40 کلو 5000 تا 5400 روپے رہا۔

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 100 روپے کم کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 10000 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں ملا جلا رجحان رہا نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھا ؤپہلے طوفان کی وجہ سے فصل کو نقصان پہنچنے کے خدشہ سے روئی کا بھا ؤبڑھ کر دسمبر وعدہ فی پاونڈ 72 امریکن سینٹ کے انچی سطح پر پہنچ گیا لیکن جمعہ کے روز دنیا بھر میں خصوصی طور پر یوروپ میں COVID-19 میں اضافہ ہونے اور دوبارہ لاک ڈاؤن ہونے کے خدشہ کی وجہ سے دنیا بھر کی کموڈیٹی مارکیٹوں میں زبردست کمی واقع ہوئی نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ دسمبر وعدہ کم ہو کر 69 امریکن سینٹ ہوگیا طوفان کا اثر زائل ہوگیا بلکہ USDA کی ہفتہ وار برآمدی رپورٹ بھی حوصلہ افزا آئی گزشتہ ہفتہ کے نسبت برآمد میں 27 فیصد کا اضافہ ہوا پاکستان اس ہفتہ بھی سب سے بڑا درآمد کنندہ رہا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آئندہ دنوں کورونا کی لہر میں اضافہ ہوگا تو روئی کے بھا ؤمیں مزید کمی آسکتی ہے دوسری جانب آئندہ ہفتہ کے دوران امریکہ کے صدارتی انتخابات ہورہے ہیں اس کے اثرات روئی کے بھاؤ پر پڑسکتے ہیں۔

علاوہ ازیں کورونا کی وجہ سے بھارت، برازیل، ارجنٹینا اور پاکستان میں بھی روئی کے بھاؤ میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں زبردست کمی کی وجہ سے بڑے ٹیکسٹائل گروپ بیرون ممالک سے روئی کی خریداری کررہے ہیں روئی کے درآمد کنندگان نے بتایا کہ تاحال روئی کی تقریبا 27 لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے کرلئے گئے ہیں مزید درآمدی معاہدے کئے جارہے ہیں ملک کی ٹیکسٹائل ملز کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے تقریبا 50 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنی پڑے گی فی الحال روپے کے مقابلہ میں ڈالر کے بھاؤ میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے اس وجہ سے روئی کی درآمد نسبتا سستی پڑے گی تاہم ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد پر اسکا منفی اثر پڑے گا۔

علاوہ ازیں موصولہ اطلاعات کے مطابق بیرون ممالک سے روئی کے علاوہ کاٹن یارن، گرے کلاتھ اور کومبر وغیرہ بھی درامد ہورہا ہے۔جبکہ ہماری ٹیکسٹائل ملز چھوٹے کانٹ کا یارن خصوصا چین کو برآمد کررہی ہے گو کہ مقامی یارن مارکیٹ میں اچھا کاروبار ہورہا ہے اور بیرون ممالک سے ٹیکسٹائل مصنوعات کے وافر تعداد میں برآمدی آرڈر موصول ہوئے ہیں لیکن کورونا دوبارہ سر اٹھا رہا ہے اس خدشہ کی وجہ سے برآمد کنندگان غیر یقینی صورت حال سے گھبرا رہے ہیں۔

ملک میں کپاس کی پیداوار میں مسلسل تشویشناک حد تک کمی واقع ہورہی ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر فوری طورپر جنگی بنیادوں پر اقدامات نہ کئے گئے تو آئندہ دنوں میں کپاس کی فصل مزید کم ہوتی جائے گی۔لیکن قوم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے مایوسی حرام ہے تاہم کپاس کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے کی اشد ضرورت ہے حکومت کو اس کے متعلق جنگی بنیادوں پر اقدام کرنے چاہئے اس وقت کپاس کے معیاری بیجوں اور خالص ادویات کی اشد ضرورت ہے اس کا بندوبست فوری طورپر کرنا چاہئے اگر ہوسکے تو بیرون ممالک سے بیج درآمد کرنے چاہئے کم از کم بیرون ممالک سے ٹیکنالوجی درآمد کی جائے تو مقامی ریسرچر اور زرعی سائنسدانوں کی معاونت کرسکیں اگر ابھی بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا تو آئندہ سالوں میں کپاس کی پیداوار اور کم ہونے کا خدشہ ہے "ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں" کی صورت حال ہوجائے گی۔

وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کی غرض سے APTMA کے مرکزی رہنما گوہر اعجاز کی سربراہی میں Cotton Task Force تشکیل دی ہے گوہر اعجاز نے کہا کہ انہوں نے ٹیکسٹائل کے 5 بڑے گروپوں کو CTF میں شامل کیا ہے وہ اپنے طور پر کپاس کی فصل بڑھانے کی کوشش کریں گے اس سے پہلے ٹیکسٹائل ملوں کے تین بڑے گروپوں نے نجی طور پر کپاس کے معیاری بیج تیار کرنے کے لئے مشترکہ طور پر SANIFA AGRI SERVICES LTD نامی نجی کمپنی تشکیل دی ہے اس کو تقریبا 5 تا 6 سال ہوچکے ہیں اس کمپنی کی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکے گا کہ نجی شعبہ کس حد تک کپاس کی فصل بڑھانے میں کامیاب ہوسکتا ہے SANIFA گو کہ نجی کمپنی ہے لیکن اس میں ٹیکسٹائل کے 3 بڑے گروپ شامل ہے ہوسکتا ہے کہ گوہر اعجاز کی CTF میں وہ بھی شامل ہوں گے۔

ان سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اب تک ان کی کارکردگی سامنے نہیں آسکی ہے وہ ملکی سطح پر کپاس کے بیج تیار نہیں کررہے اپنے لئے نجی طور پر کام کررہے ہیں بہر حال نئی تشکیل شدہ CTF اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حکمت عملی مرتب کرے گی تو اس کے نتائج سامنے آسکیں گے ہمیں اچھی امید رکھنی چاہئے۔دریں اثنا وفاقی مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داد نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ٹیکسٹائل مصنوعات Apparel ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے انجن کی حثیت رکھتی ہے ان کو مقابلتی قیمت کے حد تک کاٹن یارن فراہم کیا جانا چاہئے اس طرح تمام سیکٹرز ملک کی برآمد میں اضافہ کر سکیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ MOC نے اسپننرز اور Apparel کے مینوفیکچررز سے یارن کی فراہمی اور بھا کے متعلق کفتگو کی ہے۔ یارن کے بھا بڑھنے کی وجہ سے MOC نے یارن کی ڈیوٹی کم کرنے کے متعلق سمری تیار کی ہے جو ECC میں پیش کی جائے گی

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں