غلط اقتصادی ترجیحات ملک کو دیوالیہ کر رہی ہیں،میاں زاہد حسین

پاکستان کواب بھی اقتصادی دلدل میں ڈوبنے سے بچایا جا سکتا ہے،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

جمعرات 9 دسمبر 2021 15:13

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 دسمبر2021ء) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہدحسین نے کہا ہے کہ موجودہ سنگین اقتصادی بحران کا حل ممکن ہے مگر کوئی اسے حل نہیں کرنا چاہتا۔ ارباب اختیار میں یکسوئی کا فقدان بھی بحران کے حل میں مانع ہے۔

میاں زاہد حسین نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر شخص بحران سے پریشان اوراسکا حل جانتا ہے مگر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ اب دوست ممالک بھی زلت آمیزشرائط پرقرضے دے رہے ہیں۔ زیادہ تر حکمرانوں نے ملکی مفاد پرشخصی اورسیاسی مفاد کو ترجیح دی اور معیشت کوبڑھانے کے بجائے اپنا ووٹ بینک بڑھایا یہ سلسلہ آج بھی زوروشور سے جاری ہے۔

(جاری ہے)

اہم ترین اقتصادی فیصلے بھی سیاسی بنیادوں پرکئے جاتے ہیں اور کاروباری برادری سے مشاورت کے نام پرمذاق کیا جاتا ہے مگر وسائل کے زیاں کا یہ سلسلہ زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکتا کیونکہ اب معیشت بے جان ہو رہی ہے۔

پاکستان پہلا ملک نہیں ہے جسے اشرافیہ کی شاہ خرچیوں، غلط فیصلوں، اور خراب گورننس نے دیوالیہ کردیا ہے۔ ماضی میں بڑی شان وشوکت والی سلطنتیں بھی اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کرکے ختم ہوچکی ہیں۔ برصغیر کی غلامی کی اہم ترین وجہ بھی آمدنی سے زیادہ اخراجات تھی۔ اس وقت پاکستان 45 ارب ڈالر کے ٹریڈ ڈیفیسٹ کے خطرے کا شکار ہے، 32 یا 33 ارب ڈالر کی ممکنہ ریمیٹینسز کے بعد بارہ سے پندرہ ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا امکان ہے جبکہ اس سال 12 ارب ڈالر کے پرانے قرضے بھی واپس کرنے ہیں۔

75 ارب ڈالر کی امپورٹس کے مقابلے میں صرف 30 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس کی وجوہات میں مہنگی کاروباری لاگت، ایف بی آر کا رویہ، پالیسیوں میں عدم تسلسل، خراب گورننس، کاروبار شروع کرنے میں مشکلات اور گیس کی قلت وغیرہ شامل ہیں۔ اس وقت پاکستان فوڈ آئٹمز کا نیٹ امپورٹر بن چکا ہے اور پچھلے سال ہمیں کراپ کی ناکامی کے بعد کاٹن بھی درآمد کرنا پڑی ہے۔

بجلی کے شعبہ کے نقصانات چھ سے سات سو ارب روپے، بجلی کا گردشی قرضہ ڈھائی ٹریلین روپے، گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ سات سو ارب روپے تک پہنچ گیا ہے مگر اصلاحات کے بجائے توانائی کا ٹیرف بڑھانے کا شارٹ کٹ استعمال کیا جاتا ہے جوعوام اور معیشت کے لئے تباہ کن ہے۔ ایل این جی کی درآمد میں نا اہلی کی وجہ سے ملک وقوم کوکئی سوارب روپے کا نقصان ہوا مگرکسی افسرکوشوکازنوٹس تک نہیں ملا۔

سرکاری کارپوریشنزکو مصنوعی طور پرزندہ رکھنے کے لئے سالانہ چارارب ڈالرضائع کردئیے جاتے ہیں۔ مختلف ادارے سالانہ ساٹھ ارب ڈالر تک کی خریداری کرتے ہیں جس میں ایک اندازے کے مطابق پندرہ ارب ڈالرکی کرپشن ہوتی ہے جس کونصف بھی کردیا جائے تو ملک کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ کسی زمانہ میں بھارتیوں کے لئے پاکستانیوں کا معیارزندگی ان کے لئے ایک خواب تھا مگراب بھارت ہمیں بہت پیچھے چھوڑچکا ہے۔

بھارت کی آبادی ہم سے تقریباً پانچ گنا زیادہ ہے مگراسکی معیشت پاکستان کی معیشت سے تقریباً دس گنا بڑی ہے۔ پاکستان کوہردوسرے تیسرے سال کشکول اٹھانا پڑتا ہے جبکہ بھارت کوگزشتہ تیس سال سے آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔ جنھیں ہم کبھی بھوکا بنگالی کہتے تھے اب ہم انکی دھول کوبھی نہیں پاسکتے۔ اس وقت انکا جی ڈی پی 324 ارب ڈالرجبکہ ہمارے جی ڈی پی کا حجم تقریباً263 ارب ڈالررہ گیا ہے۔

اب چین سے تین فیصد سود پرقرضہ لیا جاتا ہے، جب چین انکار کردے توسعودی عرب سے چارفیصد سود پرمہنگا قرضہ لیا جاتا ہے اور ادھار تیل لینے پربھی 3.8 فیصد سود ادا کیا جائے گا جبکہ متحدہ عرب امارات سے بھی مہنگا قرضہ لینے کی تیاریاں کی جا رہی ہے جبکہ کچھ لوگ معیشت کی زبردست ترقی کا ڈھول بجا رہے ہیں۔ اگرملک ترقی کررہا ہے تومہنگائی 18 فیصد، بے روزگاری پانچ فیصد اورغربت 39 فیصد کیوں ہے اورقرضے لینے کے نئے ریکارڈ کیوں قائم کئے جا رہے ہیں۔

اگر شاہانہ اخراجات کم کیے جائیں، حکومت زراعت کو فروغ دے، کرپشن کوکسی حد تک کنٹرول کرے، کاروبار کرنا آسان، پالیسیوں میں تسلسل اور ایف بی آر کو کاروبار دوست بنایا جائے تو روزگار پیداوار برآمدات اورمحاصل بڑھیں گے اورہمیں کسی ملک یا ادارے سے زلت آمیزشرائط پرقرض نہیں لینا پڑے گا اورغریب عوام پرٹیکس کا بوجھ کم کیا جاسکے گا۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں