موہنجوڈرو شہر کا نکاسی آب کا نظام آج کے کراچی کے نظام سے بہتر تھا

محمد علی جناح یونیورسٹی میں لیکچرز سے مقررین کا خطاب

اتوار 10 دسمبر 2017 20:10

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 دسمبر2017ء) نوجوان نسل کو برصغیر پاک و ہندکے تاریخی حقائق سے آگاہ کرنے کے لئے محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی کے بزنس ایڈ منسٹریشن اینڈ سوشل سائینسز فیکلٹی کی جانب سے انڈس ویلی کی قدیم تہذیب پر لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔اس سلسلے کا پہلا لیکچر گزشتہ شام یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر علی ناصر کی جانب سے دیا گیا جس میں ایسوسی ایٹ ڈین،بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ سوشل سائینسز ڈاکٹر شجا عت مبارک،اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی۔

علی ناصر نے اپنے لیکچر میںکہا کہ تین ہزار تین سوسال قبل مسیح کی اس تہذیب جس کا سب سے بڑا شہر موہنجوڈرو تھا اس کی تاریخ سے ہماری نئی نسل پوری طرح واقف نہیں ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں انڈس ویلی تہذیب پر تحقیق کرنے میں بہت دلچسپی لی جارہی ہے اوروہ اس تہذیب کو ہندومذہب کی ابتدا قرار دیتے ہیں ، حال ہی میں اس تہذیب کے بارے میں وہاں ایک فلم بھی ریلیز کی گئی ہے جس میں حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ موہنجوڈرو کے بارے میں اب تک جو تحقیقی کام ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈس ویلی کے لوگوں کا ہندو مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ وہاں سے ملنے والی نوادرات میں سے اب تک کسی عبادت گاہ یا دیوی و دیوتا کی کوئی تصویر نہیں ملی ہے۔انہوں نے کہا کہ انڈس ویلی کی تہذیب سماجی طور پر بہت ترقی یافتہ تھی ،ان کی اپنی ایک زبان تھی ، پانی ذخیرہ کرنے اور نکاسی آب کا نظام ہما رے آج کے دورسے بہت بہتر تھا،شناختی کارڈ کا نظام سب سے پہلے انہوں نے متعارف کرایاتھا ، اس دور میں ہر قبیلے کی شناخت ایک جانور یا کسی ایک خاص نشان سے کی جاتی تھی اور وہ اپنے ہر شہری کا باقاعدہ ریکارڈ رکھتے تھے، اس کے علاوہ ان کے پاس ہتھیار بھی نہیں ہوتے تھے۔

۔علی ناصر نے بتایا کہ انڈس وادی کے بارے میں 1920 سے قبل کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا،اس میں رہنے والے لوگ کون تھے، وہ کہا سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے کچھ پتہ نہیں چل سکاہے ،عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ آریائی نسل کے لوگ تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تاریخ کو تعصب کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے ،سچ جاننے پر توجہ دینی چاہیے،ہمارے ہاں بر صغیر کی تاریخ محمد بن قاسم کے آنے کے بعد سے پڑھائی جاتی ہے اس قبل کی اس ریجن کی قدیم تہذیبوں کی تاریخ کے مطالعہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی ہے جو سراسر غلط بات ہے۔

انہوں نے کہا تاریخ میں ثبوت فراہم کئے بغیر کچھ سچ تعلیم نہیں کیا جاتا ہے اس لئے نئی نسل کو غلط تاریخ پڑ ھانے اجتناب کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو تاریخ کے مطالعہ سے کوئی دکچسپی نہیں وہ موہنجوڈرو، ہڑپہ اور ٹیکسلا کی قدیم تہذیبوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں جو انتہائی باعث تشویش کیونکہ ہمارے پڑوسی ملک میں نئی نسل کو قدیم تہذیبوں کے بارے میں بہت کچھ بتایا جاتا ہے۔

علی ناصر نے کہا کہ اپنی تاریخ کو فراموش کردینے والی اقوام جلد ختم ہوجاتی ہیں اور خو ان کانام و نشان تک مٹ جاتا ہے اس لئے ہمارے نوجوانوں کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اس خطہ کی تاریخ کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں اور صحیح معلومات تک رسائی حاصل کریں تاکہ ماضی کے لوگوں کے تجربات سے فائیدہ اٹھاتے ہوئے اپنا مستقبل بہتر بنایا جاسکے۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں