وزیراعلی سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت سندھ کابینہ کا اجلاس

شاہ عبداللطیف یونیورسٹی شکارپور کیمپس کا نام تبدیل کرکے شیخ ایاز یونیورسٹی اور بیگم نصرت بھٹو وومین یونیورسٹی بل 2018 میں ترمیم کی تجاویز کی منظوری

پیر 16 اپریل 2018 19:38

وزیراعلی سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت سندھ کابینہ کا اجلاس
کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اپریل2018ء) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت پیر کو سندھ کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے۔ جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق سندھ کابینہ نے شاہ عبداللطیف یونیورسٹی شکارپور کیمپس کا نام تبدیل کرکے شیخ ایاز یونیورسٹی کرنے سمیت بیگم نصرت بھٹو وومین یونیورسٹی بل 2018 ء میں ترمیم کی تجاویز کی منظوری دی۔

بیگم نصرت بھٹو وومن یونیورسٹی 271 کروڑ روپے کی لاگت سے سکھر میں تعمیر کی جارہی ہے اور یہ یونیورسٹی صرف لڑکیوں کے لیے ہوگی اس کے علاوہ شعبہ زراعت، این ٹی ایس ٹیسٹ پاس اساتذہ کو مستقل کرنے سمیت انٹراسٹی کے لیے 10 اے سی بسوں کیلئے پائلٹ پروجیکٹ کی منظوری دے دی ہے۔ 12 نکاتی ایجنڈے کے تحت جن تجاویز کی منظوری دی ہے اسے جلد ترمیمی بلز کی صورت میں منظوری کے لیے سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

نئی زراعت پالیسی، ایاز تنیو کو بطور نئے پراسیکیوٹر جنرل تعینات ، این ٹی ایس ٹیسٹ پاس اساتذہ کو مستقل کرنے، انٹراسٹی منصوبہ کیلئے 10 اے سی بسوں کے پائلٹ پروجیکٹ، سندھ یوتھ پالیسی شامل ہے۔ قبل ازیں سندھ کابینہ کا اجلاس وزیراعلی سندھ کی زیر صدارت سندھ سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں تمام صوبائی وزرا، چیف سیکریٹری سندھ ، وزیراعلی کے پرنسپل سیکریٹری سہیل راجپوت و دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔

سندھ کابینہ کے اجلاس میں بعض بلوں کی منظوری دیئے جانے پر بحث کی گئی جن میں سندھ کابینہ کا گزشتہ اجلاس 9 اپریل 2018 ء کے منٹس کی منظوری، پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی، لیبر کورٹ کے پریزائیڈنگ آفیسرز کی نامزدگی، سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے ارکان کے لیے شرائط و ضوابط طے کرنا، این ٹی ایس ٹیسٹ پاس اساتذہ کو مستقل کرنے کے بل 2018 ء پر گورنر کے اعتراضات پر غور، پائلٹ پروجیکٹ بسوں کے کرایوں کا تعین، 2018 ء سے 2030ء تک سندھ زرعی پالیسی، سندھ یوتھ پالیسی، سندھ اسپورٹس بورڈ آرڈیننس میں ترمیم کی منظوری، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی شکارپور کیمپس کو مکمل یونیورسٹی کا درجہ دینا، بیگم نصرت بھٹو وومین یونیورسٹی بل 2018 کی پرزینٹیشن اور ایڈیشنل ایجنڈا آئٹم میں سندھ انڈسٹری رجسٹریشن ایکٹ 2018 ء کی تشکیل شامل ہیں۔

اجلاس میں پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی سے متعلق بحث کی گئی جس پر وزیراعلی سندھ کو بتایا گیا کہ گزشتہ اجلاس میں فیاض شاہ کا نام منتخب ہوا تھا مگر کم عمر ہونے کے باعث ان کی تعیناتی نہ ہوسکی اور ان کی جگہ ایاز تنیو کو بطور نیا پراسیکیوٹر جنرل مقرر کرنے کی منظوری دی جائے جس کے بعد سندھ کابینہ نے تجویز منظور کر لی۔ اس کے بعد اجلاس میں گورنر سندھ کی جانب سے اعتراضات کیے گئے این ٹی ایس ٹیسٹ پاس اساتذہ کو مستقل کرنے کے بل 2018 ء پر غور کیا گیا جوکہ سندھ اسمبلی نے 26 فروری 2018 ء کو منظوری کے بعد گورنر سندھ کو بھیجا تھا۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ اگر ٹیچر کا تبادلہ کردیا جائے تو اس کی جگہ دوسرے استاد کو ضرور لگائیں، چاہتا ہوں کہ صوبے کا کوئی بھی اسکول ٹیچر جیسی بنیادی سہولت سے محروم نہ رہے اور خصوصا دیہات کے اسکول بہترین طریقے سے چلائے جائیں۔ سندھ کابینہ نے محکمہ کو پابند کیا کہ ٹرانسفر کا مقصد اسکول خالی کرنا نہیں، اساتذہ کے تبادلے کے وقت طالب علم، اساتذہ کے تناسب کو ضرور مدنظر رکھا جائے۔

اجلاس میں انٹراسٹی کے لیے 10 اے سی بسوں کیلئے پائلٹ پروجیکٹ ایجنڈے زیر بحث لایا گیا۔ جس پر وزیر ٹرانسپورٹ سید ناصر شاہ نے کابینہ کو بتایا کہ 24 سیٹر 10 اے سی بسیں کراچی کے اہم شاہراہوں پر چلائی جائیں گی جس میں قائدآباد، ملیر ہالٹ، اسٹار گیٹ، شاہراہ فیصل، فیصل کالونی، ناتھا خان، ڈرگ روڈ، پی اے ایف گیٹ، کارساز/مہران بیس، بلوچ کالونی، نرسری، ایف ٹی سی بلڈنگ، جناح اسپتال اسٹاپ، گیٹ شاپ، میٹروپول ہوٹل، نیول فانڈیشن (فوارہ چوک)، آرٹس کانسل، آئی آئی چندریگر روڈ، جنگ پریس، الفلاح بنک اسٹاپ اور ٹاور شامل ہیں۔

بسوں کے کرایہ میں 5 کلومیٹر کے فاصلہ پر 20 روپے، 5 سے 15 کلومیٹر فاصلہ پر 30 روپے جبکہ 15 سے زائد کلومیٹر کے سفر پر 40 روپے کرایہ مقرر کیا گیا ہے اور یہی کرایہ الگ پروجیکٹس کے تحت کراچی میں چلائی جانے والی دیگر بسوں پر بھی لاگو ہوگا۔ وزیراعلی سندھ کے سوال پر وزیر ٹرانسپورٹ نے کہا کہ کرایہ کمیٹی کی تجویز پر مقرر کیا گیا ہے، سندھ کابینہ نے پائیلٹ پروجیکٹ کی منظوری دے دی ہے۔

اجلاس میں زرعی پالیسی کے ایجنڈے پر بھی بحث کی گئی جوکہ زراعت، لائیو اسٹاک و فشریز کے شعبوں پر محیط تھا۔ زرعی پالیسی کے اہم مقاصد میں شعبہ زراعت کی ترقی میں 4 سے 5 فیصد کا اضافہ کرنا، دیہی علاقوں میں غربت کا خاتمہ، ایگرو-ایکولاجیکل ریسورسز بیس کو محفوظ کرنا تاکہ ماحولیات کو بہتر کیا جا سکے، ماحولیات کی تبدیلی کے مسائل کو مدنظر رکھ کر ماحول کو بہتر کرنا شامل ہیں جبکہ ترجیحات میں شعبہ زراعت میں قرضے دینا، زرعی مقاصد کے لیے زرعی زمین کی خرید، لیز و ٹرانسفر کے طریقہ کار کو آسان کرنا، شعبہ زراعت سے منصوب لیگل سسٹم کو بہتر کرنا، منظورشدہ بیج، کھاد، جانوروں کا کھانہ، ادویات کے معیار کو یقینی بنانے کی قانون سازی کرنا، نامیاتی فصلوں کی حوصلہ افزائی کرنا،شعبہ زراعت میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کے دروازے کھولنا ، اعلی قسم کی خوراک کی برآمد کرنا، شعبہ زراعت میں حکومت کے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کرنا اور شعبہ زراعت میں ریسرچ پر خصوصی توجہ دینا شامل ہیں۔

وزیر زراعت سہیل انور سیال نے مجوزہ پالیسی کو اہم قرار دیتے ہوئے سندھ کابینہ کو بتایا کہ زرعی پالیسی ورلڈ بینک کی مدد سے تیار کی گئی ہے، سندھ حکومت نے 35 ہزار 500 ٹریکٹرز محکمہ زراعت کے ذریعے کاشتکاروں کو دیئے اور تمام ٹریکٹرز کے لیے 2 ہزار لیزر اور لیولرز گزشہ برسوں میں کاشتکاروں کو دے چکے ہیں۔ سندھ کابینہ کو بتایا گیا کہ سندھ کی کپاس، شگرکین اور گندم دیگر صوبوں سے بہتر ہیں، سندھ میں اس وقت 18.1 ملین گائی/بھینسیں و دیگر دودھ دینے والے جانور اور 21 ملین بکریاں اور دنبے ہیں۔

اس موقع پر وزیراعلی سندھ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زراعت قومی معیشت میں 24 فیصد کی شراکت دار ہے، سال 2000 سے زرعی شعبہ کی ترقی 3 فیصد پر ٹھہری ہوئی ہے، سندھ میں آبپاشی کا نظام بہت اہمیت کا حامل ہے، سندھ کے تین بیراجوں سے 14 کینال کو پانی مہیا ہوتا ہے جوکہ 117 برانچ کینالز کو پانی پہنچاتے ہیں اور وہ آگے 1400 تقسیم کاروں کے ذریعے 44 ہزار واٹرکورسز کو پانی پہنچاتے ہیں۔

کابینہ نے وزیر زراعت سہیل انور سیال اور سیکریٹری ساجد جمال ابڑو کی جانب سے جامع پالیسی بنانے پر مبارکباد دیتے ہوئے تفصیلی بحث و مباحثے کے بعد نئی زراعت پالیسی منظور کرلی۔ بعد ازاں اجلاس میں یوتھ پالیسی کے ایجنڈے پر بحث کی گئی۔ سندھ یوتھ پالیسی کے اہم نکات میں نوجوانوں کے لیے یوتھ ڈیولپمنٹ کمیٹی کا قیام ، سندھ کے ہر ضلع میں یوتھ افیئرز کے ڈپارٹمنٹ کا قیام ، ملازمتوں کا ڈیٹا بیس قائم کرنے کے لیے سینٹرل انفارمیشن سسٹم کا قیام ، یوتھ وینچوئر کیپٹل فنڈ کا قیام ، یونیورسٹی سطح پر چھوٹے کاروبار کیلئے تربیتی پروگرامز ، یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹر کا قیام ، اسٹوڈنٹ یونین کو بہتر کرنا، نوجوانوں کے لیے آرٹیکن سپورٹ پروگرام شروع کرنا ، نوجوانوں کے لیے سیکیورٹی و سیفٹی پلان مرتب کرنا ، 10 فیصد نوجوان خواتین کے لیے ملازمتی کوٹہ مقرر کرنا اور لڑکے و لڑکیوں کے اسکائوٹس کو متحرک کرنا شامل ہیں۔

جس کے بعد سندھ کابینہ نے یوتھ افیئرز کے صوبائی وزیر عابد بھیو اور سیکریٹری نیاز عباسی کی جانب سے جامع پالیسی دینے پر کابینہ کی مبارکباد دیتے ہوئے یوتھ پالیسی بل کی منظوری دے دی۔ کابینہ اجلاس میں سندھ اسپورٹس بورڈ آرڈیننس میں ترمیم پر بحث کی گئی جس کا قیام 1980 میں آرڈیننس کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔ سندھ کابینہ کو وزیر کھیل محمد بخش مہر نے بریفنگ میں بتایا گیا کہ بورڈ کے چیئرمین کے لئے تجویز رکھی گئی ہے کہ وزیراعلی سندھ اور ان کی غیرموجودگی میں وزیر کھیل بورڈ کا چیئرمین ہوگا، بورڈ کی کمپوزیشن میں معمولی سی ترمیم بھی کئی گئی ہے، جس پر وزیراعلی سندھ نے تمام وزراء کو سندھ گیمز کے ایونٹ میں شریک ہونے کی ہدایت کی۔

سندھ کابینہ نے سندھ اسپورٹس بورڈ آرڈیننس کی ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے مجوزہ آرڈیننس سندھ اسمبلی میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد شاہ عبداللطیف یونیورسٹی شکارپور کیمپس کو مکمل یونیورسٹی کا درجہ دینے کے ایجنڈا پر بحث کی گئی۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ یونیورسٹی کا نام شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور ہوگا اور شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور ایکٹ 2018 ء بلایا جائے گا۔

سندھ کابینہ نے شیخ ایاز یونیورسٹی ایکٹ 2018 ء کی منظوری دے دی۔ اس کے بعد اجلاس میں بیگم نصرت بھٹو وومین یونیورسٹی بل 2018 کے ایجنڈے پر بحث کی گئی جوکہ 271 کروڑ روپے کی لاگت سے سکھر میں قائم کی جارہی ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ محترمہ پروین منشی کو بطور وائس چانسلر مقرر کردیا ہے تاکہ وہ یونیورسٹی کی کلاسز و دیگر انتظامات کرسکیں، بلڈنگ کی بانڈری وال بن رہی ہے اورآرٹس کونسل کے قریب یونیورسٹی کے لیے زمین ڈونیٹ بھی کی گئی ہے، ترقیاتی و تعمیراتی کام مسلسل جاری ہے اور یونیورسٹی صرف لڑکیوں کے لیے ہوگی۔

بریفنگ کے بعد سندھ کابینہ نے مسودے کی منظوری کے بعد سندھ اسمبلی کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کئے۔ اسکے بعد اضافی آئٹم میں سندھ انڈسٹری رجسٹریشن ایکٹ - 2018 کی تشکیل پر سندھ کابینہ اجلاس میں تجویز زیر بحث لائی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ 2 محمود آباد سے تمام تجاوزات ہٹائی جائیں، پلانٹ کی 150 ایم جی ڈی ڈی گنجائش ہے جس کو بڑھا کر 500 ایم جی ڈی کیا جائے گا اورہر فیکٹری میں پری۔

ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا لازمی ہوگا۔ سندھ کابینہ اجلاس میں بتایا گیا کہ این آئی سی وی ڈی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم قمر 8 مئی 2018 ء کو ریٹائر ہونے والے ہیں جن کی جگہ نئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کے لیے کابینہ نے اشتہارات کے ذریعے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دی۔ کمیٹی کے سربراہ چیف سیکریٹری سندھ ہونگے اوردیگر ممبران میں چیئرمین پی اینڈ ڈی، سیکریٹری صحت، سیکریٹری سروسز اور وزیراعلی سندھ کے پرنسپل سیکریٹری شامل ہوں گے۔

کابینہ نے کمیٹی کو اختیارات دیئے کہ وہ انٹرویو کے ذریعے نئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کو یقینی بنائیں۔ اس کے بعد ایک اور اضافی ایجنڈے سندھ لائیو اسٹاک رجسٹریشن اینڈ ٹریڈ اتھارٹی پر بھی بحث کی گئی جس میں سندھ کابینہ نے لائیو اسٹاک رجسٹریشن اینڈ ٹریڈ اتھارٹی کی منظوری دے دی۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں