ْ گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کی خریداری میں عدم دلچسپی، فی من بھائو میں 200 روپے کی کم ہوگئے

صوبہ سندھ کے کپاس پیدا کرنے والے علاقوں سے پانی کی کم دستیابی کے باعث فصل کی بوائی متاثر ہونے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں، نسیم عثمان

اتوار 20 مئی 2018 17:30

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مئی2018ء) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی خریداری میں عدم دلچسپی کے باعث روئی کے بھائو میں فی من 200 روپے کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ کاروباری سرگرمیاں بھی انتہائی محدودرہیں۔ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ فی من 7400 روپے کے بھائو پر مستحکم رکھا۔

کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان کے مطابق جنرز کے پاس بمشکل روئی کی ڈیڑھ لاکھ گانٹھوں کا اسٹاک موجود ہے جس میں اچھی کوالٹی کی روئی محدود تعداد میں دستیاب ہے۔بیشتر ٹیکسٹائل ملز نے اپنی روئی کی ضرورت مکمل کرلی ہے جس کے باعث مارکیٹ میں روئی کی خریداری بہت کم ہوگئی ہے۔ سب کی نظریں نئی فصل 2018-19پر لگی ہوئی ہیں۔

(جاری ہے)

صوبہ سندھ کے کپاس پیدا کرنے والے علاقوں سے پانی کی کم دستیابی کے باعث فصل کی بوائی متاثر ہونے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں جہاں ٹیوب ویل ہیں وہاں بوائی تسلی بخش بتائی جاتی ہے جبکہ نہری پانی کے علاقوں میں فصل بمشکل 50 فیصد رقبہ پر لگائی جاسکی ہے۔

کاشتکاروں میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ وہ مظاہرے بھی کر رہے ہیں کئی علاقوں میں پینے کا پانی بھی بمشکل دستیاب ہے ایسی صورت میں فصل کیلئے پانی حاصل کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کئی کاشتکاروں نے بوائی کی غرض سے مہنگے داموں خریدے ہوئے بیج واپس کر رہے ہیں پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے سابق چئیرمین ڈاکٹر جیسومل کے مطابق پانی کے بحران کی وجہ سے کپاس کی فصل میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

سابق سینئر وائس چیئرمین مسٹر پریم چند خیتانی جن کی ضلع سانگھڑ میں پانچ جننگ فیکٹریاں ہیں اور زمین داری بھی ہے اور مسٹر گوپال دیونانی پی،سی،جی،اے کے سینئر نائب چئیرمین ہیں ڈگری کے پھٹی کے تاجر محمد یونس میمن، بدین کے پھٹی کے تاجر امتیاز احمد، عمر کوٹ کے پھٹی کے تاجر مسٹر گومومل، اور ٹنڈو آدم کے جینر اور زمین دار علی محمد یوسفانی اور مول چند اور سانگھڑ کے جینر مسٹر احسن داس اور کھپرو کے دیگر زمین داروں کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ کے زریں علاقوں میں پانی کی شدید کمی کے باعث کپاس کی اور مرچی کی فصلیں تباہ ہورہی ہے کاشتکاروں کے حالات دیگر گوں ہیں کئی علاقوں میں پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں لوگ بارش کیلئے نماز استسقاادا کررہے ہیں ۔

انہوں نے بتایاکہ پانی کی قلت کے سبب اور شدید گرمی کی وجہ سے جانور مر رہے ہیں حکومت سندھ کو اسکی فوری طورپر نوٹس لیناچاہئیے ورنہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔کئی لوگ پانی کی تقسیم میں سیاست کر رہے ہیں کئی علاقوں میں پانی دستیاب ہے لیکن بڑے زمینداروں اور سیاست دان کرپشن کرکے پانی کی چوری میں ملوث ہونے کی شکایت کی جارہی ہے سندھ کے بعض علاقوں میں پینے کا پانی فراہم کرنے کے لئے رینجرز متحرک ہے اور وہ پانی چوری کرنے ولوں کے خلاف ایکشن لیکر چھاپے مار کر لوگوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کی کروائی کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں صوبہ پنجاب کے کپاس پیدا کرنے والے زریں علاقوں سے بھی پانی کی کمی کی شکایات موصول ہورہی ہیں پی، سی، جی، اے کے چئیرمین چودھری اکرام اور سابق چئیرمین شہزاد علی خان کے مطابق صوبہ پنجاب میں بھی پانی کی کمی کے سبب کپاس کی فصل میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ ٹیوب ویل کے ذریعہ بوائی ہورہی ہے لیکن نہری پانی کے علاقوں میں پانی کا مسئلہ ہے۔

دریں اثنا بین الاقوامی کپاس منڈیوں میں مجموعی طورپر روئی کے بھائو میں تیزی کا عنصر غالب رہا۔ مقامی ٹیکسٹائل سیکٹر خصوصی طور پر صوبہ پنجاب میں 10 گھنٹوں کے پاور بریک ڈائون کی وجہ سے بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے کپاس کا کاروبار بھی متاثر ہورہا ہے کاروباری حجم کم ہوگیا ہے۔ نسیم عثمان کے مطابق بیرون ممالک سے کپاس کی تقریبا 32 لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے کئے جاچکے ہیں پانی کی کمی کے باعث مقامی کپاس کی فصل میں تاخیر ہونے کے خدشہ کے مد نظر کئی ٹیکسٹائل گروپ نے بھارت سے ایک مہینے کی مزید روئی درآمد کرلی ہے۔

علاوہ ازیں ایک بین الاقوامی کاموڈیٹی مرچنٹ کئی مقامی ملز کو امریکن سینٹ کی قیمت میں وعدے میں مقامی روئی فروخت کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق فی الحال پاکستانی کاٹن کے مقامی ملوں سے وعدے میں ہزاروں گانٹھوں کے معاہدے کئے جاچکے ہیں مزید بھی کئے جارہے ہیں۔ حکومت نے کپاس کی نئی فصل2018-19کیلئے پیداواری تخمینہ ایک کروڑ 43 لاکھ 40 ہزار گانٹھوں کا مقرر کیا ہے۔ صوبہ پنجاب کا محکمہ زراعت ایک کروڑ گانٹھوں کی پیداوار حاصل کرنے کیلئے ضروری اقدام میں مصروف ہے کاشتکاروں کو رعایتی داموں پر کپاس کے سرٹیفائڈ بیج فراہم کئے جارہے ہیں۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں