امن وامان کی مجموعی صورتحال اطمینان بخش ،سکیورٹی کو مزید بہتر بنانا ہو گا ،وزیراعلیٰ سندھ

کراچی سے اسٹریٹ کرائم کا مکمل خاتمہ سندھ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے مل کرکام کریں تاکہ بہتر نتائج حاصل کئے جاسکیں،ایپکس کمیٹی کا 23 واں اجلاس میں اظہارخیال سائیبر کرائم کا سسٹم ہمارا اپنا ہونا چاہئے، آرمی چیف سے درخواست کی جائے گی کہ آرمی کی سائبر سکیورٹی ونگ سے سندھ حکومت کو مدد فراہم کی جائے،کورکمانڈر کراچی رینجرز نے 2018 میں 4031 آپریشن کرکے 2000 سے زائد گرفتار کو گرفتار کیا،ڈی رینجرز سندھ کی اجلاس کو بریفنگ

پیر 10 دسمبر 2018 21:54

امن وامان کی مجموعی صورتحال اطمینان بخش ،سکیورٹی کو مزید بہتر بنانا ہو گا ،وزیراعلیٰ سندھ
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 دسمبر2018ء) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ میں امن و امان کی صورتحال مجموعی طور پر اطمینان بخش ہے تاہم کراچی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد سیکوریٹی کو مزید بہتر بنانا ضروری ہے، کراچی سے اسٹریٹ کرائم کا مکمل خاتمہ سندھ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے مل کرکام کریں تاکہ بہتر نتائج حاصل کئے جاسکیں۔

انہوں نے یہ بات پیر کو یہاں سندھ اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ایپکس کمیٹی کا 23 واں اجلاس وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت چیف منسٹر ہا?س میں ہوا۔ اجلاس میں کورکمانڈر کراچی، چیف سیکریٹری، صوبائی وزیر سید ناصر شاہ، وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب، ایڈووکیٹ جنرل، ڈی جی رینجرز، آئی جی پولیس، کورپس کے کے برگیڈیئر انٹیلی جنس اداروں کے صوبائی سربراہان، سیکریٹری داخلہ، پرنسپل سیکریٹری، ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ اور دیگر متعلقہ افسران شریک ہوئے۔

(جاری ہے)

اجلاس کے ایجنڈا میں 22 ویں ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد، حالیہ سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ، نیشنل ایکشن پلان کا رویو، انسداد دہشت گرد ی کے مقدمات کی تفتیش اور پروسیکیوشن پر تبادلہ خیال شامل تھا۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ میں مجموعی طور پر امن امان کی صورتحال اطمینان بخش اور بہت بہترہے لیکن کراچی میں دہشتگردی کے حالیہ تین واقعات بہت افسوسناک ہیں جن میں لانڈھی میں دھماکا، چائنیز قونصلیٹ پر حملہ اور گلستان جوہر میلاد کی محفل میں دھماکہ شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان واقعات کے بعد سیکوریٹی پر مزید توجہ دینا ہماری اولین ترجیح ہے کیونکہ حکومت سندھ صوبے میں ہر صورت امن و امان کو قائم رکھنا چاہتی ہے۔اجلاس کے آغاز میںسیکریٹری داخلہ قاضی کبیر قاضی نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایپکس کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میںکئے گئے فیصلے کی روشنی میں مدارس کی رجسٹریشن اور دیگر سرکاری/ غیر سرکاری اداروں کی اداروں کی مانیٹرنگ کے لئے ورکنگ گروپ کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔

یہ گروپ سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں قائم ہوا ہے، جبکہ ارکان میںسیکریٹری مذہبی امور، پولیس، امن امان قائم کرنے والے ادارے، سوشل ویلفیئر، انڈسٹریز، ایجوکیشن ویلفیئر کے نمائندے شامل ہیں۔گروپ کا پہلا اجلاس 5 دسمبر 2018 کو ہوا تھا۔ ورکنگ گروپ مدارس اور دوسرے اداروں کے زرائع آمدنی اور اس کا استعمال، بیرون ممالک کے طلبہ جو وہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کی اسناد وغیرہ کی جانچ پڑتال کررہا ہے اس کی جانب سے نصاب کا جائزہ بھی لیا جارہا ہے تاکہ نصاب میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جو ملک کے خلاف اور دہشت گردی کے حق میں ہو۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ جانچ پڑتال صرف مدارس کی نہیں ہوگی بلکہ تمام تعلیمی اداروں کی ہوگی کیونکہ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہے دہشت گردی میں صرف چند مدارس کے بچے ملوث نہیں رہے ہیںہیں بلکہ ملک کے کئی بڑے تعلیمی اداروں کے بچے بھی اس میںملوث پائے گئے۔مدارس کی رجسٹریشن کا ڈرافٹ تیار ہو گیا ہے جس کا محکمہ قانون جائزہ لے گا ، اجلاس کو بتایا گیا کہ جو مدارس اہم راستوںپر ہیں انکی منتقلی کے لیئے ان سے بات کی جائے گی اور کہیں بھی اگر مدارس کا اہم روڈ پر واقع ہوں گے ان کے قیام کے لئے از سر نواین او سی لینا ہوگی۔

اجلاس میںکراچی سیف سٹی پر بھی غور کیا گیا اور بتایا گیا کہ اس پروجیکٹ پر پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت کام ہو رہا تھا تاہم اب طریقہ کار کے تحت یہ کام نہیں ہوگا، نادرا اور دیگر اداروں سے جو سیف سٹی پر کام کررہے ہیںدرخوارست کی گئی ہے کہ وہ تجاویز دیں۔وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سیف سٹی میں صرف کیمرہ نہیں بلکہ اس میں رسپونس بہت اہم چیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیمرہ خارجی اور داخلی مقامات پر نصب ہونگے جبکہ رسپونس میں پولیس، ٹریفک ، فائربرگیڈ اور ہر طرح کا رسپونس ہوگا۔اجلاس کے دوران کور کمانڈر کراچی نے اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ سائیبر کرائم کا سسٹم ہمارا اپنا ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میںآرمی چیف سے درخواست کی جائے گی کہ آرمی کی سائبر سکیورٹی ونگ سے سندھ حکومت کو مدد فراہم کی جائے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ سیف سٹی کا منصوبہ اب سیف سٹی پائلیٹ پروجیکٹ کے طور پر شروع کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ علاقائی پولیس اور دیگر سکیورٹی کے ادارے ملکر فیصلہ کریں گے اسٹریٹ کو کرائم کنٹرول کرنے کے لئے کونسی قانون میں اصلاحات ضروری ہیں۔اجلاس کو بتایا گیا کہ سی آر پی سی کا سیکشن 30 کے تحت اسپیشل مجسٹریٹس اسٹریٹ کرائم کے مقدمات کی سماعت کرے گا،اس میں 3 سال سے 7 سال تک سزا ہوگی۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ان کی حکومت اب اسٹریٹ کرائم کامکمل خاتمہ چاہتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے ملکر کام کریں: اجلاس کو بتاہی گیا کہ بلیک لسٹیڈ ملزمان کے 16 مقدمات ہیںجن میں 19 ملزمان ملوث ہیں جن میں 3 کو سزا ہوچکی ہے اور 9 بری ہوئے ہیں اور 7 مقدمات کی سماعت جاری ہے جو بری ہوئے ہیں ان کے خلاف اپیل فائل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ان مقدمات کے ٹرائل میں استغاثہ کے ساتھ جانچ پڑتال مل کرکی جائے گی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پراسیکیوشن اور انویسٹی گیشن میں کوآرڈینیشن کے لیئے ررینجرز، جیل کا عملہ اور دیگر متعلقہ ادارے مل کر کام کریں گے۔اجلاس میں نئے پروسیکیوٹرز کی ٹریننگ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا اور چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی گئی کہ وہ پوری کوآرڈینیشن کو مانیٹر کریں اور منظم کریں۔بارڈر فورس کے حوالے سے اجلاس کو بتا یا گیا کہ سندھ ط بلوچستان پر ایک پولیس اسٹیشن قائم کیا گیا ہے اور 69 پولیس پوسٹس بنائیں گئی ہیں،ان پر 381 پولیس اہلکار کام کر رہے ہیں اور 10 موبائل بھی مہیا کردی گئی ہیں،ان پولیس اسٹیشن کی ہفتہ وار پروگریس رپورٹ حکومت کے ساتھ شیئر کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

اجلا س کو بتایا گیا کہ بانی ایم کیو ایمالطاف حسین کے نام پر 62 عمارتیں اور دیگر ادارے تھے یہ تمام نام تبدیل کردیئے گئے ہیں؛ اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ تمام 1899 درگاہوں کی سکیورٹی آڈٹ کی گئی ہے۔جس کے بعد کچھ اہم درگاہوں کی سکیورٹی بہتر بھی کی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم نیاس مقصد کے لئے 270 ملین روپے جاری کیئے ہیں تاکہ ان پر سینسرز، سی سی ٹی وی اور دیگر ضروری آلات نصب کیئے جا سکیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ کچے کے علاقوں میں 110 پولیس اسٹیشن ہیں اور 50 چیک پوسٹس ہیں جہاں 3112 پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ان پولیس والوں کو 87 موبائلز دی گئی ہیں اور 33 موٹر سائیکلیں بھی مہیا کردی گئی ہیں۔ حکومت نے کچے کے علاقوں میں مزید توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے ،کچے کے علاقوں کو پلوں اور سڑکوں کے ذریعے پکے کے علاقوں سے ملایا جائے گا: وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ حکومت نے کچے کے علاقے میں کمیونیکیشن کو بہتر کیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری سندھ کی سربراہی میںکچے کے علاقوں کی ترقی کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی جس کے ارکان میں چیئرمین پی اینڈ ڈی، سینئر ممبر بورڈ آف روینیو، آئی جی پولیس شامل ہونگے۔کمیٹی کچے کی پکے کے علاقے سے منسلک، ترقی اور امن پسند لوگوں کو پیکج دینے کی سفارشات مرتب کرے گی۔اجلاس کو بتایا گیا کہ سندھ پولیس اور رینجرز نے پورے صوبے کی سکیورٹی آڈٹ کی جارہی ہی15 اضلاع میں یہ کام مکمل ہوچکا ہے جس میں بہت سے کمزور مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے ہدایت کی کہ جہاں کہیں بھی کمزوریوں کی نشاندہی ہو انہیں ٹھیک کیا جائے۔اجلاس کو بتایا گیا کہ نان سی پیک اور سی پیک منصوبوں کی سیکیوریٹی آڈٹ ہوچکی ہے۔نان سی پیک کے 93 منصوبے ہیں جہاں پر 952 غیر ملکی کام کر رہے ہیں۔سندھ حکومت نے 2859 سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا ہے، جن میں پولیس، آرمی، رینجرز، ایف سی شامل ہیں،سی پیک کے 10 منصوبے ہیں، ان منصوبوں پر 2878 غیرملکی کام کر رہے ہیںجن پر843 پرائیوٹ سکیورٹی گارڈز بھی ہائیر کئے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ہدایت دی کہ سی پیک منصوبوں کی مینجمینٹ کو ہدایت کی جائے کے وہ بھی 2843 پرائیوٹ سکیورٹی گارڈز بھی ہائیر کریں۔ کیونکہ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ جتنی سکیورٹی سرکاری فورس کی ہوگی اتنی ہی پرائیوٹ گارڈز منصوبوں کی انتظامیہ ہائیر کرے گی۔ا نسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس سال سندھ پولیس نے 12733 ملزموں اور 601 گینگز کا سراغ لگاکر انہیں گرفتار کیا ہے جبکہ97 مجرم مختلف مقابلوں میں مارے جاچکے ہیں۔

پولیس نے 2 راکیٹ لانچرز، ایک سینپر رائیفل، 2 ایل ایم جی، 4 جی تھری رائیفل، 181 ایس ایم جی اور 8457 پسٹلز برآمدد کیں کراچی ریجن کی پولیس نے 27کلو آتش گیر مادہ اور 205 بم یا دستی بم برآمد کئے۔ ڈکیتی کے دوران نومبر 2018 تک 47 قتل ہوئے جبکہ 2017 میں 55 ہوئے تھے اس موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ نے آئی جی کو ہدایت کی کہ ڈکیتیوں کی وارداتوں کو ہر صورت کنٹرول کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اسٹیشن کی کارکردگی بہتر ہوگی تو یہ ڈکیتیاں از خود ختم ہو جائیں گی۔آئی جی سندھ نے اجلا س کو بتایا کہ چینی قونصل خانیپر حملے میں ملوث تینوں حملہ آور مارے گئے،اب تک قومی ایکشن پلان کے تحت 23 مجرموں کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہیں اینٹی ٹیررازم فنانسنگ یونٹ کی جانب سے 2281 افراد پر کام کیا گیا ہے۔ اس یونٹ میں 1457 فورس اہلکار کام کر رہے ہیں اور باقی ٹریننگ کے مراحل سے گذر رہے ہیں سال 18-2015 میں 101966200 روپے برآمد کیئے گئے اور 25 مقدمات رجسٹرڈ کیئے گئے اور 41 ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں جن میں 5 کوسزا ہوچکی ہے۔

اجلاس کو بتا یا گیا کہ کینائن یونٹ میں 45 کتے ہیں جن کے لیے 12 ٹرینرز موجود ہیں۔ اجلاس کے دوران ڈی جی رینجرز نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ رینجرز نے 2018 میں 4031 آپریشن کیئے اور 2000 سے زائد گرفتار کو گرفتار کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ 2008 میں 4388 فور رہیلرز چوری کی گئیں جبکہ 2018 میں یہ تعداد 1100 پر 2008 میں 1465 گاڑیاں چھینی گئیں جبکہ 2018 میں یہ تعداد 165 ہے۔

انہوں نے کہا کہ موٹرسائیکل چوری ہوکر ہمیشہ کرائم میں استعمال ہوئیں۔ ڈی جی رینجرز نے کہا کہ کہ بازاروں، شاپنگ مالز، فیکٹریوں اور دیگر اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ملازمین کو محفوظ موٹرسائیکل پارکنگ مہیا کریں۔اجلاس کو بتایا گیا کہ 2008 میں 27463 موبائل فون چوری ہوئے اور 2018 میں یہ تعداد 18486 ہے۔2008 میں 20946 موبائل چھینے گئے جبکہ یہ تعداد 13597 ہے، یہ دونوں سالوں سے کم ہیں جو موبائل فون خریدتا ہے یا بیچتا ہے اس کی ڈیٹا یعنی این آئی سی دکاندار اور اداروں کے پاس ہونا چاہیے، 7 201 سے اسٹریٹ کرائم میں 3641 گرفتاریاں ہوئیں.انہوں نے بتایا کہ 1400 سے زائد عوامی سہولیات کے پلاٹس خالی کروائے گئے ہیں، ان کا استعمال کیا جائے تاکہ ان پر دوبارہ قبضہ نہ ہو سکے ،اجلاس میںدھماکہ خیز مادہ کا روبار ریگیولر نہیں ہے، اس لئے اس کام کو ریگیولرائیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

#

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں