سندھ میں قدرتی گیس کی بندش آئین کے آرٹیکل 158 کی خلاف ورزی ہے ،سید مراد علی شاہ

جمعہ 14 دسمبر 2018 21:13

سندھ میں قدرتی گیس کی بندش آئین کے آرٹیکل 158 کی خلاف ورزی ہے ،سید مراد علی شاہ
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 دسمبر2018ء) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ میں قدرتی گیس کی بندش آئین کے آرٹیکل 158 کی نہ صرف یہ کہ خلاف ورزی ہے بلکہ اس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں صنعتیں اور ٹرانسپورٹ (سی این جی) ورکرز بے روز گار ہورہے ہیں اور گھریلو صارفین کو بھی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے یہ بات جمعہ کے روز وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان سے باتیں کرتے ہوئے کہی جنہوں نے ان سے اپنے وفد کے ہمراہ وزیراعلیٰ ہائوس میں ملاقات کی۔

وزیراعلیٰ سندھ کی معاونت صوبائی وزیر انرجی امتیاز شیخ ، وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے قانون مرتضیٰ وہاب ، سیکریٹری انرجی مصدق احمد خان، اور ڈائریکٹر انرجی طارق شاہ نے کی۔ جبکہ وفد کے اراکین میں ایڈیشنل سیکریٹری وزارت پٹرولیم ڈاکٹر تنویر قریشی، ڈی جی پٹرولیم کنسیشن قاضی سلیم صدیقی، ڈی جی گیس شاہد یوسف، ڈی جی آئل جبار میمن،ڈی جی منرل محمد اقبال ، پی ٹی آئی کے ایم پی اے حلیم عادل شیخ شامل تھے۔

(جاری ہے)

محکمہ انرجی سندھ کے طارق شاہ نے اجلاس کے شرکاء کو پریزنٹیشن دی۔وزیراعلیٰ سندھ نے قدرتی گیس کی ترجیحی ضروریات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ آرٹیکل 158 کے تحت جہاں سے گیس نکلتی ہے پہلا حق اس صوبے کا ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ سے اوسط یومیہ 2600 سے 2700 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیداوارہوتی ہے اور 1000 سے 1100 ایم ایم سی ایف ڈی کا کوٹا دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں 400 صنعتی یونٹس ہیں جن میں دس لاکھ افرادی قوت کام کرتی ہے، ان صنعتی یونٹس کی گیس بند ہے، سی این جی بند ہے، یعنی ہر طرف بیروزگاری ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال ہمارے لئے تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کو تمام گیس کمپنیوں میں نمائندگی دی جائے۔وزیراعلیٰ سندھ نے ولیج گیسیفکیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 985 گائوں گیسیفکیشن کے کیسز وفاقی حکومت کے ہیں جو 9-2008 سے زیرالتوا ہیں۔

اس وقت 7718 گھریلو، 50 کمرشل، 288 صنعتی، 390 کیپٹو پاور اور 76 سی این جی یعنی کل ملا کر 8522 کنیکشنز سوئی سدرن گیس کمپنی کے پاس زیرالتوا ہیں۔ اس وقت اوگرا میں چیئرمین اور تین ممبراں سب وفاق سے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے تجویز دی کہ چیئرمین وفاقی حکومت کا ہو اور ہر صوبے سے ایک ممبر ہونا چاہئے۔پیٹرولیم کنسیشن ایگریمینٹ (پی اے سی) میں وفاقی پیٹرولیم سیکریٹری دیتا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تجویز دی کہ اس میں بھی سندھ کے سیکریٹری توانائی کو پی اے سی ایوارڈ میں شامل کیا جائے۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ صوبائی چیف انسپکٹر آف مائنز کا آئل اینڈ گیس فیلڈ کے لیبر اور مائن سیفٹی کے مسائل کے حوالے سے معائنے کے لیے کردار ہونا چاہیے۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ خام تیل پر آرٹیکل 161(1)(b)کے تحت ایکسائز ڈیوٹی عائد کی ہے اور کہا کہ خام تیل پر ڈیوٹی تیل کے کنوئوں کے ہیڈ پر لگائی جاتی ہے، جوکہ وفاقی حکومت وصول کرتی ہے۔

یہ فیڈرل کنسولیڈیٹ فنڈ میں نہیں جمع ہونی چاہئے بلکہ صوبوں کو براہ راست دی جائے۔انہوں نے کہا کہ خام تیل پر گذشتہ 8 سالوں سے ایکسائز ڈیوٹی عائد نہیں کی گئی ہے لہٰذا صوبائی حکومت کو ریونیو میں نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور نے کہا کہ وہ وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کے لیے اپنے وفد کو ساتھ لائے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کی ملاقات کا مقصد صوبائی حکومت کے نقطہ نظر کو سمجھنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ دیگر صوبوں کے وزرائ اعلیٰ سے بھی ملاقات کریں گے۔وفاقی وزیرنے وزیر اعلیٰ سندھ کو یقین دلایا کہ صوبوں کو فیڈرل آئل اینڈ گیس کمپنیز میں ان کا جائز حصہ دیاجائے گا اور جہاں تک گیس کی بندش کا تعلق ہے تو وہ اس حوالے سے ایس ایس جی سی ایل کے ساتھ اجلاس منعقد کریں گے اور حتمی فیصلے کریں گے۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیاگیا کہ صوبوں کی سی سی آئی کے آئندہ اجلاس سے قبل وفاقی وزیربرائے پٹرولیم سے ملاقات کریں گے تاکہ متفقہ طورپر تمام مسائل کا تدارک کیاجاسکے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی وزیر پٹرولیم پر زور دیا کہ وہ صوبے میں قدرتی گیس کھولنے کے احکامات دیں۔ بعد ازاں صوبائی وزیر برائے انرجی امتیاز شیخ اور وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے میڈیا کو سندھ حکومت کیموقف اور اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے بارے میں آگاہ کیا۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں